طلحہ کے لئے جنت کی بشار ت
راوی:
وعن الزبير قال : كان على النبي صلى الله عليه و سلم يوم أحد درعان فنهض إلى الصخرة فلم يستطع فقعد طلحة تحته حتى استوى على الصخرة فسمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " أوجب طلحة " . رواه الترمذي
اور حضرت زبیر کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر دو زرہیں تھیں (دوران جنگ ایک موقع پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چٹان چڑھنا چاہا (تاکہ دشمن کے لشکر کا جائزہ لیں اور مجاہدین اسلام کو بلندی پر سے دکھائی دیں ) لیکن (دونوں زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے ) اوپر چڑھنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔طلحہ نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چٹان پر چڑھنے کی کوشش کرتے اور پھر کامیاب نہ ہوتے دیکھا تو فورا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بیٹھ گئے تاآنکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوپر چڑھ کر چٹان پر پہنچ گئے اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : طلحہ نے (جنت کو واجب کرلیا ۔" (ترمذی )
تشریح :
اللہ تعالیٰ کے ارشاد : خذوا حذرکم (اے ایمان والو! اپنی احتیاط رکھو ) کی زیادہ سے زیادہ تعمیل کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں اس دن پہن رکھی تھیں کیونکہ زرہ اور سپر جیسی چیزیں سامان جنگ میں سے ہیں اور میدان جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لئے لازمی ذریعہ ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ پر ہتھیاروں کا استعمال اور تحفظ کے مادی ذرائع اختیار کرنا تو کل کے منافی نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دو زرہیں پہن کر گویا امت کو بتا یا کہ دشمن کے مقابلہ پر اپنے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہئے ۔
" طلحہ نے (جنت کو ) واجب کرلیا ۔" جنت " کا لفظ بعض روایتوں میں صریح آیا ہے اس جملہ کا مطلب یہ تھا کہ طلحہ نے اپنے اس ایک عمل کے ذریعہ یا اپنے ان مجاہدانہ کارناموں کے ذریعہ جوانہوں نے اس جنگ میں انجام دئیے ہیں اپنے لئے جنت کا استحقاق اور وجوب پیدا کرلیا ہے ، بلاشبہ اس جنگ میں حضرت ابوطلحہ کی جانثاری وفدا کاری اسی طرح کی تھی کہ آنحضرت ان کو اس بشارت سے نوازتے ۔ انہوں نے جان کی بازی لگا کر اپنے جسم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال بنالیا تھا اور آنحضرت کی طرف آنے والے تمام تیر اپنے بدن پر روک رہے تھے ، ان کا پورا جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا ، ان کا ہاتھ تو زندگی بھر معطل اور شل رہا ۔ اسی ٨٠سے اوپر زخم ان کے بدن پر شمار کئے گئے تھے یہاں تک کہ ان کا عضو مخصوص بھی زخمی ہونے سے نہیں بچا تھا ۔ بعد میں صحابہ کرام جب بھی عزوہ احد کا ذکر کرتے تو کہا کرتے تھے کہ جنگ کا وہ پورا دن طلحہ کی سرفروشی اور فدا کاری کا دن تھا ۔