حسن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق خاطر
راوی:
وعن أبي هريرة قال : خرجت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في طائفة من النهار حتى أتى خباء فاطمة فقال : " أثم لكع ؟ أثم لكع ؟ " يعني حسنا فلم يلبث أن جاء يسعى حتى اعتنق كل واحد منهما صاحبه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اللهم إني أحبه فأحبه وأحب من يحبه " . متفق عليه
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کے ایک حصہ میں باہر نکلا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں پہنچے تو پوچھا : کیا یہاں منا ہے کیا یہاں منا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے تھی (جن کو ڈھونڈتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے ) ابھی آپ نے چند ہی لمحے گزارے تھے کہ حسن دوڑتے ہوئے آئے ، پھر حسن رضی اللہ عنہ آنحضرت کے گلے سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسن کے گلے سے لپٹ گئے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " خدایا ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے ۔" بخاری ومسلم )
تشریح
اس حدیث سے ایک تو معانقہ کا جائز ہونا ثابت ہوا ، دوسرے جیسا کہ نووی نے لکھا ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں سے محبت و شفقت اور نرمی و مہربانی کا برتاؤ کرنا یعنی ان کے گلے لگانا، گود میں اٹھا لینا اور ان کو پیار کرنا مستحب ہے نیز بچوں اور اپنے چھوٹوں کے سامنے بھی انکساری و فروتنی اختیار کرنا اور ان کی خاطر داری کرنا مستحب ہے۔