سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء ۔ حدیث 1196

ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے

راوی: حسن بن علی , محمد بن یحیی بن فارس , بشر بن عمر , مالک بن اوس بن حدثان

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ فَارِسٍ الْمَعْنَی قَالَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ حَدَّثَنِي مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَی النَّهَارُ فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَی سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَی رِمَالِهِ فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ يَا مَالِ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِکَ وَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْئٍ فَأَقْسِمْ فِيهِمْ قُلْتُ لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِکَ فَقَالَ خُذْهُ فَجَائَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَکَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا ثُمَّ جَائَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَکَ فِي الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا يَعْنِي عَلِيًّا فَقَالَ بَعْضُهُمْ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْهُمَا قَالَ مَالِکُ بْنُ أَوْسٍ خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِکَ النَّفَرَ لِذَلِکَ فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ اتَّئِدَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أُولَئِکَ الرَّهْطِ فَقَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ فَقَالَا نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنْ النَّاسِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَی وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ وَلَکِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَی مَنْ يَشَائُ وَاللَّهُ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ وَکَانَ اللَّهُ أَفَائَ عَلَی رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْکُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَکُمْ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أُولَئِکَ الرَّهْطِ فَقَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِکَ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِکَ قَالَا نَعَمْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَی أَبِي بَکْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَکَ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ فَوَلِيَهَا أَبُو بَکْرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَکْرٍ قُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَکْرٍ فَوَلِيتُهَا مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُکُمَا وَاحِدٌ فَسَأَلْتُمَانِيهَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْکُمَا عَلَی أَنَّ عَلَيْکُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلِيهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَی ذَلِکَ ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَکُمَا بِغَيْرِ ذَلِکَ وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَکُمَا بِغَيْرِ ذَلِکَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ قَالَ أَبُو دَاوُد إِنَّمَا سَأَلَاهُ أَنْ يَکُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ لَا أَنَّهُمَا جَهِلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ فَإِنَّهُمَا کَانَا لَا يَطْلُبَانِ إِلَّا الصَّوَابَ فَقَالَ عُمَرُ لَا أُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ أَدَعُهُ عَلَی مَا هُوَ عَلَيْهِ

حسن بن علی، محمد بن یحیی بن فارس، بشر بن عمر، حضرت مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے دن چڑھے مجھے بلانے کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔ پس میں آیا تو میں نے ان کو بستر کے بغیر ایک تخت پر بیٹھے ہوئے پایا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا اے مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے پس میں نے ان کو کچھ دینے کا حکم کیا۔ سو تم ان میں تقسیم کر دو میں نے عرض کیا کا ش! آپ اس کام کے واسطے کسی اور کو حکم فرماتے۔ آپ نے فرمایا نہیں لے لو۔ (یعنی گھبراؤ نہیں یہ مال لو اور ان میں تقسیم کر دو) اتنے میں یرفاء آیا (یرفاء حضرت عمر کا آزاد کردہ غلام اور دربان) اور بولا عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص آپ سے ملنا چاہتے ہیں کیا آپ ان کو آنے کی اجازت دیتے ہیں آپ نے کہا ہاں ان کو آنے دے۔ جب یہ سب حضرات آگئے تو یرفاء پھر آیا اور بولا عباس اور علی بھی آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ان کو بھی آنے دے پس جب سب لوگ آ گئے تو حضرت عباس نے کہا اے امیر المؤمنین! میرے اور ان کے یعنی علی کے درمیان فیصلہ کر دیجئے۔ اتنے میں دوسرے لوگ بھی بول اٹھے ہاں امیر المؤمنین آپ ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ان دونوں کو آرام پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباس نے ہی ان بقیہ حضرات کو اسی کام کے لئے آگے بھیجا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا ذرا صبر کرو۔ کچھ دیر کے بعد حضرت عمر ان سب حضرات کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کہ کیا تم یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہم (یعنی انبیاء) میراث چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ جو کچھ چھوڑ تے ہیں وہ صدقہ ہے۔ سب نے تائید کرتے ہوئے کہا ہاں بیشک آپ نے ایسا ہی فرمایا تھا پھر وہ حضرت علی اور حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے بھی قسم دے کر یہی بات پوچھی کہ کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ تے ہیں وہ سب صدقہ ہے ان دونوں حضرات نے بھی اس کی تائید کی۔ تو حضرت عمر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ایسی خصوصیت مر حمت فرمائی جو آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں بخشی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ نے کافروں سے جو مال اپنے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ جس پر چاہتا ہے اپنے رسولوں کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے اللہ نے اپنے رسول کو بنی نضیر کا مال دلایا واللہ آپ نے اس مال میں تم میں سے کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی خود لے لیا بلکہ آپ نے اس میں سے ایک سال کا خرچ لیا۔ یا یہ کہا کہ۔ آپ نے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ایک سال کا خرچ لیا اور جو باقی بچا وہ سب کا برابر کا حق قرار دیا۔ اس کے بعد حضرت عمران صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کہ کیا تم یہ بات جا نتے ہو؟ (یعنی آپ نے اس مال میں اسی طرح تصرف کیا جس طرح بیان کیا گیا) تو سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم یہ بات جانتے ہیں۔ پھر وہ حضرت علی اور حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا کہ میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کہ کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ (جس طرح یہ سب لوگ جانتے ہیں؟) تو ان دونوں حضرات نے بھی کہا ہاں ہم بھی یہ بات جانتے ہیں۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت ابوبکر نے کہا اب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوں تو (اے عباس) تم اور یہ (علی) ابوبکر کے پاس گئے تھے تم اپنے بھیتیجے کی میراث طلب کر رہے تھے اور یہ علی اپنی بیوی کے لئے ان کے والد بزرگوار کی میراث طلب کر رہے تھے تو ابوبکر نے تم دونوں سے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر سچے نیک ہدایت یا فتہ اور حق کے تابع تھے پس ابوبکر اس مال کے متولی رہے جب ابوبکر کی بھی وفات ہوگئی تو میں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر دونوں کا خلیفہ ہوں پھر میں ان اموال کا متولی رہا جب تک اللہ کو میرا متولی رہنا منظور ہوا پھر اے عباس تم اور علی آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تم دونوں کا مقصد بھی ایک ہے تم دونوں نے یہ کہا کہ وہ مال ہمارے قبضہ میں دے دو۔ میں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں وہ مال تمہاری تولیت میں دیئے دیتا ہوں مگر اس شرط پر کہ تم کو قسم ہے اللہ کی اس مال میں اسی طرح کام کرنا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال میں متولی رہتے تھے۔ تم نے اس شرط پر وہ مال مجھ سے لے لیا پھر اب تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تمہارا فیصلہ اس کے علاوہ دوسری صورت میں کروں (یعنی تم دونوں کے درمیان تقسیم کر دوں) تو اللہ کی قسم میں قیامت تک بھی اس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر فیصلہ نہیں کروں گا۔ البتہ اگر تم عاجز ہو جاؤ (یعنی تم سے ان مالوں کا اہتمام نہ ہو سکے) تو پھر مجھ ہی کو لوٹا دینا۔ ابوداؤد فرماتے ہیں کہ ان دونوں حضرات نے یہ درخواست کی تھی کہ اس کا انتظام ہمارے درمیان تقسیم کر دیجئے۔ یہ نہیں کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو مال چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ معلوم نہ تھی بلکہ یہ دونوں حضرات بھی حق ہی کی تلاش میں تھے اس پر حضرت عمر نے یہ فرمایا کہ میں اس پر تقسیم کا عنوان نہیں آنے دوں گا بلکہ سابقہ حالت پر ہی رہنے دوں گا۔

یہ حدیث شیئر کریں