اسباب میں سلف کرنے کا بیان
راوی:
عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَرَجُلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ رَجُلٍ سَلَّفَ فِي سَبَائِبَ فَأَرَادَ بَيْعَهَا قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهَا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تِلْکَ الْوَرِقُ بِالْوَرِقِ وَکَرِهَ ذَلِکَ
قَالَ مَالِک وَذَلِکَ فِيمَا نُرَی وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَبِيعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ بِأَکْثَرَ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ وَلَوْ أَنَّهُ بَاعَهَا مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ لَمْ يَکُنْ بِذَلِکَ بَأْسٌ
قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِيمَنْ سَلَّفَ فِي رَقِيقٍ أَوْ مَاشِيَةٍ أَوْ عُرُوضٍ فَإِذَا كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ مَوْصُوفًا فَسَلَّفَ فِيهِ إِلَى أَجَلٍ فَحَلَّ الْأَجَلُ فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ لَا يَبِيعُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ مِنْ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْهُ بِأَكْثَرَ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي سَلَّفَهُ فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَ مَا سَلَّفَهُ فِيهِ وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا فَعَلَهُ فَهُوَ الرِّبَا صَارَ الْمُشْتَرِي إِنْ أَعْطَى الَّذِي بَاعَهُ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ فَانْتَفَعَ بِهَا فَلَمَّا حَلَّتْ عَلَيْهِ السِّلْعَةُ وَلَمْ يَقْبِضْهَا الْمُشْتَرِي بَاعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا بِأَكْثَرَ مِمَّا سَلَّفَهُ فِيهَا فَصَارَ أَنْ رَدَّ إِلَيْهِ مَا سَلَّفَهُ وَزَادَهُ مِنْ عِنْدِهِ قَالَ مَالِك مَنْ سَلَّفَ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا فِي حَيَوَانٍ أَوْ عُرُوضٍ إِذَا كَانَ مَوْصُوفًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ حَلَّ الْأَجَلُ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يَبِيعَ الْمُشْتَرِي تِلْكَ السِّلْعَةَ مِنْ الْبَائِعِ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ الْأَجَلُ أَوْ بَعْدَ مَا يَحِلُّ بِعَرْضٍ مِنْ الْعُرُوضِ يُعَجِّلُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ بَالِغًا مَا بَلَغَ ذَلِكَ الْعَرْضُ إِلَّا الطَّعَامَ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ أَنْ يَبِيعَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ وَلِلْمُشْتَرِي أَنْ يَبِيعَ تِلْكَ السِّلْعَةَ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي ابْتَاعَهَا مِنْهُ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ أَوْ عَرْضٍ مِنْ الْعُرُوضِ يَقْبِضُ ذَلِكَ وَلَا يُؤَخِّرُهُ لِأَنَّهُ إِذَا أَخَّرَ ذَلِكَ قَبُحَ وَدَخَلَهُ مَا يُكْرَهُ مِنْ الْكَالِئِ بِالْكَالِئِ وَالْكَالِئُ بِالْكَالِئِ أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ دَيْنًا لَهُ عَلَى رَجُلٍ بِدَيْنٍ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ قَالَ مَالِك وَمَنْ سَلَّفَ فِي سِلْعَةٍ إِلَى أَجَلٍ وَتِلْكَ السِّلْعَةُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ وَلَا يُشْرَبُ فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ يَبِيعُهَا مِمَّنْ شَاءَ بِنَقْدٍ أَوْ عَرْضٍ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَهَا مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهَا الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَبِيعَهَا مِنْ الَّذِي ابْتَاعَهَا مِنْهُ إِلَّا بِعَرْضٍ يَقْبِضُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ قَالَ مَالِك وَإِنْ كَانَتْ السِّلْعَةُ لَمْ تَحِلَّ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا بِعَرْضٍ مُخَالِفٍ لَهَا بَيِّنٍ خِلَافُهُ يَقْبِضُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ قَالَ مَالِك فِيمَنْ سَلَّفَ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ فِي أَرْبَعَةِ أَثْوَابٍ مَوْصُوفَةٍ إِلَى أَجَلٍ فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ تَقَاضَى صَاحِبَهَا فَلَمْ يَجِدْهَا عِنْدَهُ وَوَجَدَ عِنْدَهُ ثِيَابًا دُونَهَا مِنْ صِنْفِهَا فَقَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَثْوَابُ أُعْطِيكَ بِهَا ثَمَانِيَةَ أَثْوَابٍ مِنْ ثِيَابِي هَذِهِ إِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا أَخَذَ تِلْكَ الْأَثْوَابَ الَّتِي يُعْطِيهِ قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ الْأَجَلُ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ قَبْلَ مَحِلِّ الْأَجَلِ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ أَيْضًا إِلَّا أَنْ يَبِيعَهُ ثِيَابًا لَيْسَتْ مِنْ صِنْفِ الثِّيَابِ الَّتِي سَلَّفَهُ فِيهَا
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سے ایک شخص نے پوچھا جو کوئی کپڑوں میں سلف کرے پھر قبل قبضے کے ان کو بیچنا چاہے ابن عباس نے کہا یہ چاندی کی بیع ہے چاندی کے بدلے میں اور اس کو مکروہ جانا ۔
کہا مالک نے ہماری دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ان کپڑوں کو اسی کے ہاتھ بیچنا چاہے جس سے خریدا ہے پہلی قیمت سے کچھ زیادہ پر کیونکہ اگر وہ کسی اور شخص سے ان کپڑوں کو بیچنا چاہے تو کچھ قباحت نہیں ۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص سلف کرے غلام میں یا جانور میں یا کسی اور اسباب میں اور اس کے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزرے تو مشتری (خریدنے والا) ان چیزوں کو اسی بائع (بچنے والا) کے ہاتھ پہلی قیمت سے زیادہ پر نہ بیچے جب تک کہ ان چیزوں کو اپنے قبضے میں نہ لائے ورنہ ربا ہوجائے گا گویا بائع (بچنے والا) نے ایک مدت تک مشتری (خریدنے والا) کے روپوں سے فائدہ اٹھایا پھر زیادہ دے کر اس کو پھیر دیا تو یہ عین ربا ہے۔
کہا مالک نے جو شخص سلف کرے سونا چاندی دے کر کسی اساب میں یا جانور میں اور اس سے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزر جائے یا نہ گزرے تو مشتری (خریدنے والا) اس اسباب یا جانور کو بائع (بچنے والا) کے ہاتھ کسی اور اسباب کے بدلے میں بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس اسباب کو نقد لے لے اس میں میعاد نہ ہو سوائے غلے کے کہ اس کا بیچنا قبل قبضے کے درست نہیں اور اگر مشتری (خریدنے والا) اس اس اسباب کو سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ بیچے تو سونے چاندی کے بدلے میں بھی بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقد لے میعاد نہ ہو ورنہ کالئی کی بیع کالئی کے بدلے میں ہوجائے گی یعنی دین کے بدلے میں دین۔
کہا مالک نے جو شخص کسی اسباب میں جو کھانے پینے کا نہیں ہے سلف کرے ایک میعاد پر تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے کہ اس اسباب کو سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ سونا یا چاندی یا اسباب کے بدلے میں فروخت کر ڈالے قبضے سے پیشتر مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ بائع (بچنے والا) کے ہاتھ ہی بیچے اگر ایسا کرے تو اسباب کے بدلے میں بید ڈالے تو کچھ قباحت نہیں مگر نقدا نقد بیچے۔
کہا مالک نے جس نے روپے یا اشرفیاں دے کر سلف کی چار کپڑوں میں ایک میعاد پر اور ان کپڑوں کے اوصاف بیان کردیئے ۔ جب مدت گزری تو مشتری (خریدنے والا) نے بائع (بچنے والا) پر ان چیزوں کا تقاضا کیا لیکن بائع (بچنے والا) کے پاس اس قسم کے کپڑے نہ نکلے بلکہ اس سے ہلکے اس وقت بائع (بچنے والا) نے کہا تو ان ہلکے کپڑوں میں سے آٹھ کپڑے لے لے تو مشتری (خریدنے والا) کو لینا درست ہے مگر اسی وقت نقد لینا چاہیے دیر نہ کرے اگر ان آٹھ کپڑوں کی کوئی معیاد نہ کرے گا تو درست نہیں ہے اگر قبل معیاد گزرنے کے دوسرے کپڑے اسی قسم کے ٹھہرائے تو درست نہیں البتہ دوسرے قسم کے کپڑوں سے بدلنا درست ہے۔
Yahya related to me from Malik from Yahya ibn Said that al-Qasim ibn Muhammad said, ''I heard Abdullah ibn Abbas say, when a man asked him about a man making an advance on some garments and then wanting to sell them back before taking possession of them, 'That is silver for silver,' and he disapproved of it."