مرابحہ کا بیان
راوی:
بَاب بَيْعِ الْمُرَابَحَةِ حَدَّثَنِي يَحْيَى قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْبَزِّ يَشْتَرِيهِ الرَّجُلُ بِبَلَدٍ ثُمَّ يَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا آخَرَ فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً إِنَّهُ لَا يَحْسِبُ فِيهِ أَجْرَ السَّمَاسِرَةِ وَلَا أَجْرَ الطَّيِّ وَلَا الشَّدِّ وَلَا النَّفَقَةَ وَلَا كِرَاءَ بَيْتٍ فَأَمَّا كِرَاءُ الْبَزِّ فِي حُمْلَانِهِ فَإِنَّهُ يُحْسَبُ فِي أَصْلِ الثَّمَنِ وَلَا يُحْسَبُ فِيهِ رِبْحٌ إِلَّا أَنْ يُعْلِمَ الْبَائِعُ مَنْ يُسَاوِمُهُ بِذَلِكَ كُلِّهِ فَإِنْ رَبَّحُوهُ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ بَعْدَ الْعِلْمِ بِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ قَالَ مَالِك فَأَمَّا الْقِصَارَةُ وَالْخِيَاطَةُ وَالصِّبَاغُ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْبَزِّ يُحْسَبُ فِيهِ الرِّبْحُ كَمَا يُحْسَبُ فِي الْبَزِّ فَإِنْ بَاعَ الْبَزَّ وَلَمْ يُبَيِّنْ شَيْئًا مِمَّا سَمَّيْتُ إِنَّهُ لَا يُحْسَبُ لَهُ فِيهِ رِبْحٌ فَإِنْ فَاتَ الْبَزُّ فَإِنَّ الْكِرَاءَ يُحْسَبُ وَلَا يُحْسَبُ عَلَيْهِ رِبْحٌ فَإِنْ لَمْ يَفُتْ الْبَزُّ فَالْبَيْعُ مَفْسُوخٌ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَتَرَاضَيَا عَلَى شَيْءٍ مِمَّا يَجُوزُ بَيْنَهُمَا قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْمَتَاعَ بِالذَّهَبِ أَوْ بِالْوَرِقِ وَالصَّرْفُ يَوْمَ اشْتَرَاهُ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ بِدِينَارٍ فَيَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً أَوْ يَبِيعُهُ حَيْثُ اشْتَرَاهُ مُرَابَحَةً عَلَى صَرْفِ ذَلِكَ الْيَوْمِ الَّذِي بَاعَهُ فِيهِ فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ ابْتَاعَهُ بِدَرَاهِمَ وَبَاعَهُ بِدَنَانِيرَ أَوْ ابْتَاعَهُ بِدَنَانِيرَ وَبَاعَهُ بِدَرَاهِمَ وَكَانَ الْمَتَاعُ لَمْ يَفُتْ فَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ أَخَذَهُ وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ فَإِنْ فَاتَ الْمَتَاعُ كَانَ لِلْمُشْتَرِي بِالثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهُ بِهِ الْبَائِعُ وَيُحْسَبُ لِلْبَائِعِ الرِّبْحُ عَلَى مَا اشْتَرَاهُ بِهِ عَلَى مَا رَبَّحَهُ الْمُبْتَاعُ قَالَ مَالِك وَإِذَا بَاعَ رَجُلٌ سِلْعَةً قَامَتْ عَلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ لِلْعَشَرَةِ أَحَدَ عَشَرَ ثُمَّ جَاءَهُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَامَتْ عَلَيْهِ بِتِسْعِينَ دِينَارًا وَقَدْ فَاتَتْ السِّلْعَةُ خُيِّرَ الْبَائِعُ فَإِنْ أَحَبَّ فَلَهُ قِيمَةُ سِلْعَتِهِ يَوْمَ قُبِضَتْ مِنْهُ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْقِيمَةُ أَكْثَرَ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي وَجَبَ لَهُ بِهِ الْبَيْعُ أَوَّلَ يَوْمٍ فَلَا يَكُونُ لَهُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ وَذَلِكَ مِائَةُ دِينَارٍ وَعَشْرَةُ دَنَانِيرَ وَإِنْ أَحَبَّ ضُرِبَ لَهُ الرِّبْحُ عَلَى التِّسْعِينَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الَّذِي بَلَغَتْ سِلْعَتُهُ مِنْ الثَّمَنِ أَقَلَّ مِنْ الْقِيمَةِ فَيُخَيَّرُ فِي الَّذِي بَلَغَتْ سِلْعَتُهُ وَفِي رَأْسِ مَالِهِ وَرِبْحِهِ وَذَلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِينَارًا قَالَ مَالِك وَإِنْ بَاعَ رَجُلٌ سِلْعَةً مُرَابَحَةً فَقَالَ قَامَتْ عَلَيَّ بِمِائَةِ دِينَارٍ ثُمَّ جَاءَهُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَامَتْ بِمِائَةٍ وَعِشْرِينَ دِينَارًا خُيِّرَ الْمُبْتَاعُ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَى الْبَائِعَ قِيمَةَ السِّلْعَةِ يَوْمَ قَبَضَهَا وَإِنْ شَاءَ أَعْطَى الثَّمَنَ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ عَلَى حِسَابِ مَا رَبَّحَهُ بَالِغًا مَا بَلَغَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ أَقَلَّ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ السِّلْعَةَ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُنَقِّصَ رَبَّ السِّلْعَةِ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ لِأَنَّهُ قَدْ كَانَ رَضِيَ بِذَلِكَ وَإِنَّمَا جَاءَ رَبُّ السِّلْعَةِ يَطْلُبُ الْفَضْلَ فَلَيْسَ لِلْمُبْتَاعِ فِي هَذَا حُجَّةٌ عَلَى الْبَائِعِ بِأَنْ يَضَعَ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ عَلَى الْبَرْنَامَجِ
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کرکے دوسرے شہر میں لائے پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی اور تہہ کرنے کی مزدوری اور باندھا بوندھی کی اجرت اور اپنا خرچ اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کرلے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری (خریدنے والا) کو اطلاع دے اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہوجائے تو کچھ قباحت نہیں ۔
کہا مالک نے کپڑوں کی دھلائی اور نگوائی اس لاگت میں داخل ہوگی اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا اب اگر کپڑا تلف ہوگیا تو کرایہ باربرداری کا محسوب ہوگا مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کردیں گے جب دونوں راضی ہوجائیں کسی امر پر۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب سونے یا چاندی کے بدلے میں خریدا تو اس دن چاندی سونے کا بھاؤ یہ تھا کہ دس درہم کو ایک دینار آتا تھا پھر مشتری (خریدنے والا) اس مال کو لے کر دوسرے شہر میں آیا اور اسی شہر میں مرابحہ کے کے طور پر بیچنا چاہا اسی نرخ پر جو سونے چاندی کا اس دن تھا اگر اس نے دراہم کے بدلے میں خریدا تھا اور دیناروں کے بدلے میں بیچا یا دیناروں کے بدلے میں خریدا تھا اور درہموں کے بدلے میں بیچا اور اسباب موجود ہے۔ تلف نہیں ہوا تو خریدار کو اختیار ہوگا چاہے لے چاہے نہ لے اور اگر وہ اسباب تلف ہوگیا تو مشتری (خریدنے والا) سے وہ ثمن جس کے عوض میں بائع (بچنے والا) نے خریدا تھا نفع حساب کرکے بائع (بچنے والا) کو دلادیں گے۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص نے اپنی چیز جو سو دینار کو پڑی تھی دس فی صدی کے نفع پر بیچی پھر معلوم ہوا کہ وہ چیز نوے دینار کو پڑی تھی اور وہ چیز مشتری (خریدنے والا) کے پاس تلف ہوگئی تو اب بائع (بچنے والا) کو اختیار ہوگا چاہے اس چیز کی قیمت بازار کی لے لے اس دم کی قیمت جس دن وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے پاس آئی تھی مگر جس صورت میں قیمت بازار کی اس ثمن سے جو اول میں ٹھہری تھی یعنی ایک سو دس دینار سے زیادہ ہو تو بائع (بچنے والا) کو ایک سو دس دینار سے زیادہ نہ ملیں گے اور اگر چاہے تو نوے دینار پر اسی حساب سے نفع لگا کریعنی ننانوے دینار لے لے مگر جس صورت میں یہ ثمن قیمت سے کم ہو تو بائع (بچنے والا) کا اختیار ہوگا ۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک چیز مرابحہ پر بیچی اور کہا سو دینار کو مجھ کو پڑی ہے پھر اس کو معلوم ہوا ایک سو بیس دینار کو پڑی تو اب خریدار کو اختیار ہوگا اگر چاہے تو بائع (بچنے والا) کا اس دن کی قیمت بازار کی جس دن وہ شئے لی ہے دے دے اور اگر چاہے تو جس ثمن پر خرید کیا ہے نفع لگا کر جہاں تک پہنچے دے مگر جس صورت میں قیمت بازار کی پہلی ثمن سے (یعنی جو سو دینار پر لگی ہے) کم ہو تو مشتری (خریدنے والا) کو یہ نہیں پہنچتاکہ اس سے کم دے اس واسطے کہ مشتری (خریدنے والا) اس پر راضی ہوچکا ہے مگر بائع (بچنے والا) نے اس سے زیادہ بیان کیا تو خریدار کو اصلی ثمن سے کم کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔