آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
راوی: احمد بن صالح , عبداللہ بن وہب , عیاش بن عقبہ , فضل بن حسن ضمری
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ أَنَّ أُمَّ الْحَکَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَکَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنْ السَّبْيِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَقَکُنَّ يَتَامَی بَدْرٍ لَکِنْ سَأَدُلُّکُنَّ عَلَی مَا هُوَ خَيْرٌ لَکُنَّ مِنْ ذَلِکَ تُکَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَی إِثْرِ کُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَکْبِيرَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ قَالَ عَيَّاشٌ وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
احمد بن صالح، عبداللہ بن وہب، عیاش بن عقبہ، حضرت فضل بن حسن ضمری سے روایت ہے کہ ام حکم یا ضباعہ جو زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹیاں تھیں۔ ان سے کسی ایک نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چند قیدی آئے تو میں میری بہن اور رسول اللہ کی صاحبزادی فاطمہ آپ کے پاس پہنچیں۔ اور آپ سے اپنے حال کا شکوہ کیا اور چاہا کہ ہم کو کوئی قیدی دلوادیں (جوہمارے گھر کے کام کاج میں ہمارا ہاتھ بٹائے) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے وہ یتیم بچے اور بچیاں مستحق ہیں جن کے باپ بدر کے دن شہید ہوئے تھے البتہ میں تم کو اس سے بہتر بات بتائے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم ہر فرض نماز کے بعد تینتیس (33) مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس (33) مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس (34) مرتبہ اللہ اکبر اور ایک مرتبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ ۔ پڑھ لیا کرو۔