باب سورت بقرہ کے متعلق
راوی: عبد بن حمید , ضحاک بن مخلد ابوعاصم نبیل , حیوة بن شریح , یزید بن ابی حبیب , اسلم ابوعمران
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ قَالَ کُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَکْثَرُ وَعَلَی أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ وَعَلَی الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَی صَفِّ الرُّومِ حَتَّی دَخَلَ فِيهِمْ فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَی التَّهْلُکَةِ فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَکَثُرَ نَاصِرُوهُ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَکَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَی نَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيکُمْ إِلَی التَّهْلُکَةِ فَکَانَتْ التَّهْلُکَةُ الْإِقَامَةَ عَلَی الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْکَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّی دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
عبد بن حمید، ضحاک بن مخلد ابوعاصم نبیل، حیوة بن شریح، یزید بن ابی حبیب، حضرت اسلم ابوعمران کہتے ہیں کہ ہم جنگ کیلئے روم گئے ہوئے تھے رومیوں کی فوج میں سے ایک بڑی صف مقابلے کیلئے نکلی جن سے مقابلے کیلئے مسلمانوں میں سے بھی اتنی ہی تعداد میں یا اس سے زیادہ آدمی نکلے۔ ان دنوں مصر پر عقبہ بن عامر حاکم تھے جبکہ لشکر کے امیر فضالہ بن عبید تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے روم کی صف پر حملہ کر دیا یہاں تک کہ ان کے اندر چلا گیا۔ اس پر لوگ چیخنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ خود کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو تم لوگ اس آیت کی یہ تفسیر کرتے ہو (وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ) 2۔ البقرۃ : 195)۔ (یعنی تم خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو) ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت ہم انصار کے متعلق نازل ہوئی اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا اور اس کے مددگاروں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ تو ہم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا اور اس کی مدد کرنے والے بہت ہیں اور ہمارے اموال (کھیتی باڑی وغیرہ) ضائع ہوگئے ہیں۔ ہمارے لئے بہتر ہوگا کہ ہم ان کی اصلاح کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بات جواب کے میں یہ آیت نازل فرمائی "وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيکُمْ إِلَی التَّهْلُکَةِ" 2۔ البقرۃ : 195) (یعنی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو) چنانچہ ہلاکت یہ تھی کہ ہم اپنے احوال اور کھیتی باڑی کی اصلاح میں لگ جائیں اور جنگ و جہاد کو ترک کر دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ جہاد ہی میں رہے یہاں تک کہ دفن بھی روم ہی کی سر زمین میں ہوئے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Aslam Abu Imran Tujibi (RA) narrated: We were in Rome and a mighty unit of their army advanced. So, a similar large number of the Muslim s – or a larger number – countered them. At the time the governor of Egypt was Uqbah ibn Aamir and the commander of the army was Fadalah ibn Ubayd. A man of the Muslim s penetrated the ranks of the army of the Romans. So the people shrieked. “Subhan Allah. He has thrown himself into ruin.” So, Abu Ayyub Ansari (RA) stood up and said, “O People! You interpret this verse as you say while, in fact, it was revealed about us, Ansars. When Allah gave honour to Islam and the supporters of Islam mutiplied, some of us said to some others, unknown to Allah’s Messenger (SAW) that our properties had been wasted after Allah had given honour to Islam and multiplied its supporters, we should repair our fields and properties that had been wasted. So Allah revealed to His Prophet (SAW) in answer to our fears:
“And spend of your substance in the cause of Allah, and make not your own hands contribute to (your) destruction.”
(2 :195)
The destruction was that we should devote ourselves to repair of our properties and neglect the battles. Abu Ayyub did not cease to fight in Allah’s way till he was buried in the land of Rome.
[Abu Dawud 2512]