شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں
راوی:
بَاب مَا جَاءَ فِي الشِّرْكَةِ وَالتَّوْلِيَةِ وَالْإِقَالَةِ قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَبِيعُ الْبَزَّ الْمُصَنَّفَ وَيَسْتَثْنِي ثِيَابًا بِرُقُومِهَا إِنَّهُ إِنْ اشْتَرَطَ أَنْ يَخْتَارَ مِنْ ذَلِكَ الرَّقْمَ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يَشْتَرِطْ أَنْ يَخْتَارَ مِنْهُ حِينَ اسْتَثْنَى فَإِنِّي أَرَاهُ شَرِيكًا فِي عَدَدِ الْبَزِّ الَّذِي اشْتُرِيَ مِنْهُ وَذَلِكَ أَنَّ الثَّوْبَيْنِ يَكُونُ رَقْمُهُمَا سَوَاءً وَبَيْنَهُمَا تَفَاوُتٌ فِي الثَّمَنِ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِالشِّرْكِ وَالتَّوْلِيَةِ وَالْإِقَالَةِ مِنْهُ فِي الطَّعَامِ وَغَيْرِهِ قَبَضَ ذَلِكَ أَوْ لَمْ يَقْبِضْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ بِالنَّقْدِ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ رِبْحٌ وَلَا وَضِيعَةٌ وَلَا تَأْخِيرٌ لِلثَّمَنِ فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ رِبْحٌ أَوْ وَضِيعَةٌ أَوْ تَأْخِيرٌ مِنْ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَارَ بَيْعًا يُحِلُّهُ مَا يُحِلُّ الْبَيْعَ وَيُحَرِّمُهُ مَا يُحَرِّمُ الْبَيْعَ وَلَيْسَ بِشِرْكٍ وَلَا تَوْلِيَةٍ وَلَا إِقَالَةٍ قَالَ مَالِك مَنْ اشْتَرَى سِلْعَةً بَزًّا أَوْ رَقِيقًا فَبَتَّ بِهِ ثُمَّ سَأَلَهُ رَجُلٌ أَنْ يُشَرِّكَهُ فَفَعَلَ وَنَقَدَا الثَّمَنَ صَاحِبَ السِّلْعَةِ جَمِيعًا ثُمَّ أَدْرَكَ السِّلْعَةَ شَيْءٌ يَنْتَزِعُهَا مِنْ أَيْدِيهِمَا فَإِنَّ الْمُشَرَّكَ يَأْخُذُ مِنْ الَّذِي أَشْرَكَهُ الثَّمَنَ وَيَطْلُبُ الَّذِي أَشْرَكَ بَيِّعَهُ الَّذِي بَاعَهُ السِّلْعَةَ بِالثَّمَنِ كُلِّهِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُشَرِّكُ عَلَى الَّذِي أَشْرَكَ بِحَضْرَةِ الْبَيْعِ وَعِنْدَ مُبَايَعَةِ الْبَائِعِ الْأَوَّلِ وَقَبْلَ أَنْ يَتَفَاوَتَ ذَلِكَ أَنَّ عُهْدَتَكَ عَلَى الَّذِي ابْتَعْتُ مِنْهُ وَإِنْ تَفَاوَتَ ذَلِكَ وَفَاتَ الْبَائِعَ الْأَوَّلَ فَشَرْطُ الْآخَرِ بَاطِلٌ وَعَلَيْهِ الْعُهْدَةُ قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لِلرَّجُلِ اشْتَرِ هَذِهِ السِّلْعَةَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ وَانْقُدْ عَنِّي وَأَنَا أَبِيعُهَا لَكَ إِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ حِينَ قَالَ انْقُدْ عَنِّي وَأَنَا أَبِيعُهَا لَكَ وَإِنَّمَا ذَلِكَ سَلَفٌ يُسْلِفُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنْ يَبِيعَهَا لَهُ وَلَوْ أَنَّ تِلْكَ السِّلْعَةَ هَلَكَتْ أَوْ فَاتَتْ أَخَذَ ذَلِكَ الرَّجُلُ الَّذِي نَقَدَ الثَّمَنَ مِنْ شَرِيكِهِ مَا نَقَدَ عَنْهُ فَهَذَا مِنْ السَّلَفِ الَّذِي يَجُرُّ مَنْفَعَةً قَالَ مَالِك وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ سِلْعَةً فَوَجَبَتْ لَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَجُلٌ أَشْرِكْنِي بِنِصْفِ هَذِهِ السِّلْعَةِ وَأَنَا أَبِيعُهَا لَكَ جَمِيعًا كَانَ ذَلِكَ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِهِ وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنَّ هَذَا بَيْعٌ جَدِيدٌ بَاعَهُ نِصْفَ السِّلْعَةِ عَلَى أَنْ يَبِيعَ لَهُ النِّصْفَ الْآخَرَ
کہا مالک نے جس شخص نے کئی قسم کا کپڑا بیچا اور چند رقم کے کپڑے مستثنی کرلینے کی شرط کرلی تو کچھ قباحت نہیں اگر شرط نہیں کی تو وہ ان کپڑوں میں شریک ہو جائے گا ۔ اس لئے کہ ایک رقم کے کپڑوں میں بھی کم وبیش ہوتی ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ شرکت اور تولیہ اور اقالہ کھانے کی چیزوں میں درست ہے ہے خواہ ان پر قبضہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر یہ ضروری ہے کہ نقد ہو میعاد نہ ہو اور کمی بیشی نہ ہوا اگر اس میں کمی بیشی ہوگی یا میعاد ہوگی تو یہ معاملے بیع سمجھے جائیں گے شرکت اور تولیہ اور اقالہ نہ ہوں گے ۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب جیسے کپڑا یا غلام یا لونڈی خرید کیا پھر ایک شخص نے اس سے کہا کہ مجھ کو بھی اس میں شریک کرلو اس نے قبول کیا اور دونوں نے مل کر بائع (بچنے والا) کو قیمت ادا کردی پھر وہ اسباب کسی اور کا نکلا تو جو شخص شریک ہو وہ اپنے دام پہلے مشتری (خریدنے والا) سے لے لے گا۔ اور وہ بائع (بچنے والا) سے لے گا مگر جس صورت میں مشتری (خریدنے والا) نے خریدتے وقت بائع (بچنے والا) کے سامنے اس شریک سے کہہ دیا ہو کہ اگر مبیع میں فتور نکلے تو اس کی جواب وہی بائع (بچنے والا) پر ہوگی تو اس صورت میں وہ شریک اپنا نقصان بائع (بچنے والا) سے لے گا اگر ایسا نہ ہو تو مشتری (خریدنے والا) کی شرط کچھ کام نہ آئے گی اور تاوان کا نقصان اسی پر ہوگا۔
کہا مالک نے زید نے عمرو سے یہ کہا تو اس شئے کو خرید کرلے میرے اور اپنے ساجھے میں بکوادوں گا۔ تو میری طرف سے بھی دام دے دے تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ سلف (قرض) ہے بکوادینے کی شرط پر اگر وہ شئے تلف ہوجائے تو عمروزید سے اس کے حصہ کے دام لے لے گا البتہ اگر عمرو ایک شئے خرید کرچکا پھر زید نے کہا مجھے بھی اس میں شریک کرلے نصف کا میں بکوادوں گا تو یہ درست ہے۔