باب سورت بقرہ کے متعلق
راوی: عبد بن حمید , سلیمان بن حرب , حماد بن سلمة , ثابت , انس
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَتْ الْيَهُودُ إِذَا حَاضَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ لَمْ يُؤَاکِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبُيُوتِ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی وَيَسْأَلُونَکَ عَنْ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًی فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤَاکِلُوهُنَّ وَيُشَارِبُوهُنَّ وَأَنْ يَکُونُوا مَعَهُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَأَنْ يَفْعَلُوا کُلَّ شَيْئٍ مَا خَلَا النِّکَاحَ فَقَالَتْ الْيَهُودُ مَا يُرِيدُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ قَالَ فَجَائَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ بِذَلِکَ وَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَنْکِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ غَضِبَ عَلَيْهِمَا فَقَامَا فَاسْتَقْبَلَتْهُمَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَثَرِهِمَا فَسَقَاهُمَا فَعَلِمَا أَنَّهُ لَمْ يَغْضَبْ عَلَيْهِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ
عبد بن حمید، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمة، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر یہودیوں میں سے کوئی عورت ایام حیض میں ہوتی تو وہ لوگ نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ میل جول رکھتے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس مسئلے کے متعلق دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی" وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ ھُوَ اَذًى" 2۔ البقرۃ : 22) (یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے کہ یہ ناپاکی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ساتھ کھایا پیا جائے اور انہیں گھروں میں اپنے ساتھ رکھا جائے نیز ان کے ساتھ جماع کے علاوہ سب کچھ (یعنی بوس وکنار وغیرہ) کرنا جائز ہے۔ اس پر یہودی کہنے لگے کہ یہ ہمارے ہر کام کی مخالفت کرتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عباد بن بشیر اور اسید بن حضیر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کے اس قول کی خبر دینے کے بعد عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم حیض کے ایام میں جماع بھی نہ کرنے لگیں تاکہ ان کی مخالفت پوری ہو جائے۔ یہ بات سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک غصے سے متغیر ہوگیا۔ یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ناراض ہوگئے ہیں اور پھر اٹھ کر چل دئیے۔ اسی وقت ان دونوں کیلئے دودھ بطور ہدیہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھیج دیا اور انہوں نے پیا۔ اس طرح ہمیں علم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ناراض نہیں ہیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔ محمد بن عبدالاعلی اسے عبدالرحمن بن مہدی سے اور وہ حماد بن سلمہ سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Anas (RA) reported that if any of the Jewish women had her menses, they would not eat with her, not drink with her and not have her in their company. The Prophet (SAW) was asked about it and Allah, the Blessed the Exalted, revealed.
“They ask thee concerning women's courses. Say: They are a hurt.” (2:222)
So, Allah’s Messenger (SAW) commanded them that they should eat with the women and drink with them and be with them in the house and do everything except have sexual intercourse with them. The Jews commented that he did not intend but oppose their affairs. Abbad ibn Bashir and Usayd ibn Hudayr came to Allah’s Messenger (SAW) and informed him of that and suggested, “O Messenger of Allah (SAW) shall we not also have sexual intercourse with our women during their menstruation?” The face of Allah’s Messenger (SAW) changed colour and they imagined that he was angry at the two of them.O He stood up (and went away). A gift of milk was received at that moment for both of themand the Prophet (SAW) sent it for them. They drank it and learnt that he was not angry at them.”
[Ahmed 12356,Muslim 302,Abu Dawud 258, Ibn e Majah 644]
——————————————————————————–