مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 812

حضرت زید کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنے گھر جانے سے انکار

راوی:

وعن جبلة بن حارثة قال : قدمت على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : يا رسول الله ابعث معي أخي زيدا . قال : " هو ذا فإن انطلق معك لم أمنعه " قال زيد : يا رسول الله والله لا أختار عليك أحدا . قال : فرأيت رأي أخي أفضل من رأيي . رواه الترمذي

اور حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ زید موجود ہے (اور اپنی مرضی کا مختار ہے ) اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اس کو منع نہیں کرتا ، زید نے یہ سن کر ) کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی صحبت و خدمت میں رہنے کی سعادت ) پر کسی کو بھی ترجیح نہیں دیتا (خواہ وہ بھائی یا والدین ہی کیوں نہ ہوں ) جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے (زید کا یہ فیصلہ سنا تو ) مان لیا کہ میرے بھائی کی عقل میری عقل سے بڑھی ہوئی ہے ۔ " (ترمذی )

تشریح
میں اس کو منع نہیں کرتا " یعنی : جب میں اس کو آزاد کر چکا ہوں تو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق اس کو مل گیا ہے اب نہ تو میں اس کو جانے سے روک سکتا ہوں اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ چلے جاؤ وہ جانا چاہے تو چلا جائے اور نہ جانا چاہے تو شوق سے میرے پاس رہے ۔
میری عقل سے بڑھی ہوئی ہے جبلہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پہلے تو میری رائے یہ تھی کہ زید کو میرے اپنے گھر واپس چلنا چاہئے مگر زید کا فیصلہ سننے کے بعد ان کی رائے کی اصابت اور برتری کا میں قائل ہو گیا ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و خدمت میں رہنے والا کوئی بھی صاحب ایمان اس دنیاوی و آخروی سعادت و عظمت اور خیر و بھلائی کو چھوڑنے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بھائی کے آمد اور ان کو اپنے ساتھ وطن لے جانے کی درخواست پیش کرنے کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت زید غلام نہیں رہ گئے تھے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خلعت آزادی سے سرفراز فرما چکے تھے اور اپنی مرضی کے پوری طرح مختار تھے ، لیکن ظاہر ہے کہ خدمت بابرکت اور صحبت پر سعادت کی لذت ان کو کہاں جانے دیتی تھی ۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے وہ یمن کے باشندہ تھے بچپن میں جب کہ ان کی عمر آٹھ سال کی تھی کچھ قریش مکہ ان کو پکڑ کر لائے تھے اور بطور غلام بازار میں فروخت کر ڈالا تھا ، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے ان کو خرید لیا تھا ۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو انہوں نے زید رضی اللہ عنہ کو بطور ہدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا ۔ اور اپنی آزاد کردہ لونڈی ام یمن سے ان کا نکاح کر دیا ، ام یمن کے بطن سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ، بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا جن کو کچھ دنوں بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی بعض حضرات کے قول کے مطابق بیس سال چھوٹے تھے ۔ بدر اور دوسرے غزوں میں شریک ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کا بھائی چارہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قائم کیا تھا غزوہ موتہ ٨ھ بعمر ٥٥سال شہید ہوئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں