مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 858

عبداللہ بن سلام کی فضیلت

راوی:

وعن سعد بن أبي وقاص قال : ما سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول لأحد يمشي على وجه الأرض " إنه من أهل الجنة " إلا لعبد الله بن سلام . متفق عليه

اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں کہ جو زمین پر چلتا ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت جلیل القدر صحابی ہیں ان کا سلسلہ نبوت حضرت یوسف علیہ السلام سے ملتا ہے ، چنانچہ یہ پہلے ایک یہودی تھے اور نہایت ممتاز درجہ کے علماء یہود میں شمار ہوتے تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت فرمائی اور انہوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اسلام اور مسلمانوں کی نمایاں خدمات انجام دیں ، انہی حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے صرف ان کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان مقدس سے یہ بشارت سنی ہے کہ عبداللہ بن سلام جنتی ہیں ۔ "
" جو زمین پر چلتا ہو " یہ صفت اعترازیہ ہے ، یعنی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ الفاظ اس لئے کہے تاکہ عشرہ مبشرہ میں سے ان حضرات کا استثناء ہوجائے جو حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے انتقال کر چکے تھے ۔ گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت روئے زمین پر جو لوگ زندہ ہیں ان میں صرف عبداللہ بن سلام وہ واحد شخص ہیں جن کی نسبت میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے اپنے کان سے سنا ہے کہ وہ جنتی ہیں ۔ "
علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ دس صحابہ کی نسبت جنتی ہونے کی بشارت مذکور ہے کیونکہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض اپنے سننے کی نفی کی ہے ، یعنی انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بشارت صرف عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں سنی ہے اور کسی کے بارے میں نہیں سنی ہے ۔ لہٰذا کسی اور کے بارے میں ان کا سننا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ جنتی ہونے کی بشارت عبداللہ بن سلام کے علاوہ اور شخص کو عطا نہیں ہوئی ۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ کسی واقعہ کے بارے میں نفی اور اثبات دونوں پہلوؤں کو ظاہر کرنے والی روایات موجود ہوں تو ترجیح اسی روایت کو ہوتی ہے جس سے اثبات ظاہر ہوتا ہے ۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو جنتی ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور تو وہی دس صحابہ ہیں جن کو اسی بشارت کی بناء پر " عشرہ مبشرہ " سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خود حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں شامل ہیں ۔ لہٰذا اس حدیث کے تحت جو اشکال واقع ہوتا ہے اس کا کچھ ازالہ تو مذکورہ بالا وضاحتوں سے ہوجاتا ہے ، باقی کے لئے شارحین نے کچھ اور باتیں لکھی ہیں مثلا یہ کہ ہوسکتا ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کے حق میں مذکورہ بشارت سننے کی یہ نفی کی تھی اس وقت تک یہ بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو عطا نہیں فرمائی تھی ، یا یہ کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نفی اس وقت کی ہوگی جب کہ باقی صحابہ مبشرین اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ۔ چنانچہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ان صحابہ مبشرین کے بعد تک بقید حیات رہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو عشرہ مبشرہ میں سے حضرت سعد اور حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو دارقطنی نے نقل کی ہے اور جس میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یوں ہیں کہ : میں نے عبداللہ بن سلام کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں کہ جو اس وقت زندہ ہے اور چلتا پھرتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے، اب رہا یہ سوال کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات کہتے ہوئے خود اپنی ذات کو اور حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملحوظ کیوں نہیں رکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے خود اپنا ذکر تو اس وجہ سے نہیں کیا کہ ان کو اپنے حق میں اس بشارت کا علم کسی دوسرے ذریعہ سے ہوا ہوگا ، خود انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بشارت نہیں سنی ہوگی ، یا یہ کہ انہوں نے کسر نفسی کے تحت اپنا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا ہوا ہوگا ، اور جہاں تک حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں اشکال اس وضاحت سے صاف ہوجاتا ہے کہ حضرت سعد نے یمشی علی وجہ الارض (جو زمین پر چلتا ہو ) کے جو الفاظ کہے ہیں ان سے مراد یہ ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں یہ بشارت ارشاد فرمائی تھی اس وقت وہ زمین پر چل رہے تھے جب کہ دوسروں کے حق میں یہ بشارت دوسری حالتوں میں ارشاد فرمائی گئی ۔

یہ حدیث شیئر کریں