مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 860

حضرت ثابت بن قیس کو جنت کی بشارت

راوی:

عن أنس قال : كان ثابت بن قيس بن شماس خطيب الأنصار فلما نزلت هذه الآية : [ يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ] إلى آخر الآية جلس ثابت في بيته واحتبس عن النبي صلى الله عليه و سلم فسأل النبي صلى الله عليه و سلم سعد بن معاذ فقال : " ما شأن ثابت ايشتكى ؟ " فأتاه سعد فذكر له قول رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال ثابت : أنزلت هذه الآية ولقد علمتم أني من أرفعكم صوتا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فأنا من أهل النار فذكر ذلك سعد للنبي صلى الله عليه و سلم . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " بل هو من أهل الجنة " . رواه مسلم

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس انصار کے خطیب تھے (یعنی انصار میں یہ وہ شخص تھے جن کی بات چیت فصاحت وبلاغت سے پُر ہوتی تھی اور جو نثر کے مانے ہوئے ادیب وخطیب تھے ) جب یہ آیت نازل ہوئی : (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ) 49۔ الحجرات : 2) (یعنی اے ایمان والو، اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو الخ ) تو ثابت اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنا جانا بند کر دیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن ) سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (جوانصار کے سردار تھے ) پوچھا کہ ثابت کو کیا ہوا (کہ انہوں نے آنے جانے بند کر رکھا ہے اور کہیں دکھائی نہیں دیتے ) کیا وہ بیمار ہیں ؟ سعد (چپ رہے انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ خود ان کو ثابت کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور تحقیق کئے بغیر کوئی جواب دینے سے قاصر تھے ، چنانچہ وہ تحقیق حال کے لئے ) ثابت کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نقل کئے (کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں پوچھ رہے تھے اور فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں جو ہمارے پاس نہیں آتے ) ثابت نے (یہ سن کر) کہا کہ : یہ آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ) 49۔ الحجرات : 2) نازل ہوئی (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز میں بات چیت کرنے سے منع کرتی ہے ) اور تم جانتے ہی ہو کہ تم میں سب سے زیادہ میری ہی آواز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند ہے، لہٰذا میں تو دوزخی ہوں ، سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کے الفاظ نقل کئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ ثابت تو جنتی ہے ۔ " (مسلم )

تشریح :
" کیا وہ بیمار ہیں ؟ " ظاہر یہ ہے کہ حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق حال نے تاثیر کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے کا باعث ہوا ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں پوچھا اور تشویش ظاہر فرمائی کہ وہ کہیں بیمار تو نہیں ہیں جو ہماری مجلس میں ان کا آناجانا بند ہے

حالت خویش چہ حاجت کہ بوئے شرح دہم گر
مرا سوز دلی ہست اثر خواھد کرد
" میں تو دوزخی ہوں" دراصل حضرت ثابت طبعی وجبلی طور پر بلند آواز تھے اور خطابت کے وصف نے ان کی آواز اور ان کے لب ولہجہ کو اور زیادہ جاندار اور بلند کردیا تھا چنانچہ بات چیت میں ان کی آواز بلاقصد بھی بلند ہوجایا کرتی تھی ۔ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو وہ یہ سمجھے کہ میں اپنی آواز کو پست رکھنے پر چونکہ قادر ہی نہیں ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی میری آواز لا محالہ بلند رہتی ہے اس لئے میں اس آیت کے عدم تعمیل کا مرتکب ہوں ، اور اسی کے سبب میرے سارے اعمال برباد ہوگئے ، میں دوزخی ہوگیا ، انہوں نے یہ نہیں جانا کہ اس آیت کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس اونچی آواز میں گفتگو کرنے سے منع کرنا ہے جو قصد واختیار کے تحت ہو اور جس سے بے ادبی ظاہر ہوتی ہو ۔
" ثابت توجنتی ہے " یعنی ثابت نے میرے ادب واحترام میں جس شدت سے احتیاط کا پہلواختیار کیا کہ طبعی وجبلی بلند آواز کو بھی ناجائز رکھا اس کی بناء پر اس نے جنت کا استحقاق پیدا کرلیا ہے وہ جنت میں جائے گا، چنانچہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنتی ہونا واقعاتی طور پر بھی اس طرح ثابت ہوا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ یمامہ میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا ، منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صد یق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مسلیمہ کذاب کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور مجاہدین اسلام کو تیاری کا حکم دیا تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا کفن تیار کرایا اور اسی کفن کو پہن کر جنگ یمامہ میں مسلیمہ کذاب کے خلاف لڑے ، یہاں تک کہ وہی کفن پہنے ہوئے شہید ہوئے ۔
اس حدیث کے تحت ایک اشکال بھی واقع ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت کا ٩ھ میں نازل ہونا بیان کیا جاتا ہے جب کہ حضرت سعد بن معاذ اس سے پہلے ٥ھ ہی میں وفات پاچکے تھے ؟ اس کا جواب شارحین نے یہ لکھا ہم کہ اس حدیث میں حضرت ثابت کے تعلق سے جس آیت کا ذکر ہے وہ بس وہی ہے جس میں فقط آواز بلند نہ کرنے کا حکم مذکور ہے یعنی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ) 49۔ الحجرات : 2) نہ کہ سورت کی پہلی آیت یعنی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُ قَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ – الخ) 49۔ الحجرات : 1) کا پس سورت کی یہ پہلی آیت تو ٩ھ میں نازل ہوئی ہوگی اور حدیث میں مذکورہ آیت حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال سے پہلے نازل ہوچکی ہوگی ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں