علمی بزرگی رکھنے والے چار صحابہ
راوی:
وعن معاذ بن جبل لما حضره الموت قال : التمسوا العلم عند أربعة : عند عويمر أبي الدرداء وعند سلمان وعند ابن مسعود وعند عبد الله بن سلام الذي كان يهوديا فأسلم فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إنه عاشر عشرة في الجنة " . رواه الترمذي
اور حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ علم چار آدمیوں سے حاصل کرو ، عویمر سے جن کی کنیت ابودرداء ہے سلمان فارسی سے ، عبداللہ بن مسعود سے، اور عبداللہ بن سلام سے جو یہودی تھے ۔ اور پھر انہوں نے اسلام قبول کیا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ وہ ( عبداللہ بن سلام ) جنت کے دس شخصوں میں سے دسواں شخص ہے ۔ " (ترمذی )
تشریح :
" علم چار آدمیوں سے حاصل کرو " میں " علم " سے مرادیا تو عمومی طور پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے یا اس علم کمال کا وہ خاص فن کہ جس سے حلال وحرام امور کی معرفت وپہچان حاصل ہوتی ہے اور یہ دوسرا احتمال زیادہ قوی اور زیادہ واضح ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد : اعلمکم بالحلال والحرام معاذ بن جبل : (حلال واحرام امور کا علم تم میں سے سب سے زیادہ معاذ بن جبل کو حاصل ہے ) کے بموجب اسی خاص علم وفن سے حضرت معاذ بن جبل کو مناسبت تامہ بھی حاصل ہے اور اسی سے ان کی وجہ خصوصیت بھی ظاہر ہوتی ہے ۔
" جن کی کنیت ابودرداہ ہے " ان کا اصل نام " عویمر " ہی تھا لیکن مشہور اپنی کنیت " ابودرداء کے ساتھ تھے " درداء " ان کی بیٹی کا نام تھا ۔ حضرت عویمر یعنی حضرت ابودرداء انصاری خزرجی ہیں ، زبر دست فقیہہ ، بلند پایہ عالم ، بزرگ مرتبہ زاہد ، اور نہایت اونچے درجہ کے حکیم ودانا تھے ۔ اصحاب صفہ میں سے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا ۔ بعد میں انہوں نے ملک شام میں سکونت اختیار کرلی تھی اور ٣٢ ھ میں بمقام دمشق ان کا انتقال ہوا ۔
" اور پھر انہوں نے اسلام قبول کیا " حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے اور دین موسوی کے زبر دست عالم مانے جاتے تھے تورات کے علوم پر پورا عبور رکھتے تھے ۔ اور اس کے رموز واشارات سے پوری طرح واقف تھے اس آسمانی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جتنی پیشنگوئیاں اور ہدایات تھیں ان کو پوری طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کو ابتداء ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا انتظار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا اشتیاق پوری شدت کے ساتھ تھا ، چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو پہلے ہی دن انہوں نے خدمت اقدس میں حاضری دی اور اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔
" دس شخصوں میں سے دسواں شخص ہے " ان الفاظ سے بظاہریہ مفہوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن سلام " عشرہ مبشرہ " میں شامل ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ، اس لئے ان الفاظ معنی یوں بیان کئے جائیں گے کہ عبداللہ بن سلام گو یا ان دس شخصوں میں سے دسویں شخص کی مانند ہیں جن کو جنت کی بشارت ہوئی ، اور ایک شارح نے اس جملہ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ : عبداللہ بن سلام صحابہ میں کے نو شخصوں کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے ۔ یعنی صحابہ جس ترتیب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اس میں دسواں نمبر عبداللہ بن سلام کا ہوگا ۔ لیکن اس معنی میں یہ خرابی ہے کہ اس سے عبداللہ بن سلام کا بعض عشرہ مبشرہ سے پہلے جنت میں داخل ہونا لازم آتا ہے ، بہرحال اس جملہ کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام ان دس یہودیوں میں کے دسویں شخص ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا یا یہ معنی مراد ہیں کہ عشرہ مبشرہ کے بعد جو پہلے دس شخص جنت میں داخل ہوں گے ان میں کے دسویں شخص عبداللہ بن سلام ہیں اس طرح صحابہ جس ترتیب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ان میں عبداللہ بن سلام کا نمبر انیسواں ہوگا ۔