سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ جنگ کے متعلق احادیث مبارکہ ۔ حدیث 376

مرتد سے متعلق احادیث

راوی: قاسم بن زکریا بن دینار , احمد بن مفضل , اسباط , زعم سدی , مصعب بن سعد

أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ قَالَ زَعَمَ السُّدِّيُّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَکَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ اقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ عِکْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِکَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ فَاسْتَبَقَ إِلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ حُرَيْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِيدٌ عَمَّارًا وَکَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَيْنِ فَقَتَلَهُ وَأَمَّا مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ فَأَدْرَکَهُ النَّاسُ فِي السُّوقِ فَقَتَلُوهُ وَأَمَّا عِکْرِمَةُ فَرَکِبَ الْبَحْرَ فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِينَةِ أَخْلِصُوا فَإِنَّ آلِهَتَکُمْ لَا تُغْنِي عَنْکُمْ شَيْئًا هَاهُنَا فَقَالَ عِکْرِمَةُ وَاللَّهِ لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِي مِنْ الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ لَا يُنَجِّينِي فِي الْبَرِّ غَيْرُهُ اللَّهُمَّ إِنَّ لَکَ عَلَيَّ عَهْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَضَعَ يَدِي فِي يَدِهِ فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا کَرِيمًا فَجَائَ فَأَسْلَمَ وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَی الْبَيْعَةِ جَائَ بِهِ حَتَّی أَوْقَفَهُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا کُلَّ ذَلِکَ يَأْبَی فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا کَانَ فِيکُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَی هَذَا حَيْثُ رَآنِي کَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ فَقَالُوا وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِکَ هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِکَ قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَکُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ

قاسم بن زکریا بن دینار، احمد بن مفضل، اسباط، زعم سدی، مصعب بن سعد سے اپنے والد سے روایت کرتے ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام لوگوں کو امن دیا (یعنی پناہ دی) لیکن چار مردوں اور عورتوں سے متعلق فرمایا یہ لوگ جس جگہ ملے ان کو قتل کر دیا جائے چاہے یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے ہوں (مراد یہ ہے کہ چاہے جیسی بھی عبادت میں مشغول ہوں) وہ چار لوگ یہ تھے عکرمہ بن ابوجہل عبداللہ بن خطل مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی السرح۔ تو عبداللہ بن خطل خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ملا تو اس کو قتل کرنے کے واسطے دو شخص آگے بڑھے ایک تو حضرت سعد بن حریث اور دوسرے حضرت عمار بن یاسر لیکن حضرت سعد حضرت عمار سے زیادہ جوان تھے تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا آگے بڑھ کر اور مقیس بن صبابہ بازار میں ملا تو اس کو لوگوں نے وہاں پر ہی قتل کر دیا اور ابوجہل کا لڑکا عکرمہ سمندر میں سوار ہوگیا تو وہاں پر طوفان آگیا اور وہ اس طوفان میں گھر گیا تو کشتی والوں نے اس سے کہا کہ اب تم سب صرف اللہ تعالیٰ کو پکارو اس لئے کہ تم لوگوں کے معبود اس جگہ کچھ نہیں کر سکتے (یعنی سب بے بس اور مجبور محض ہیں) اس پر عکرمہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم اگر دریا میں اس کے علاوہ کوئی مجھ کو نہیں بچا سکتا۔ اے میرے پروردگار میں تجھ سے اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس مصیبت سے کہ میں جس میں پھنس گیا ہوں تو مجھ کو بچا لے گا تو میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ رکھوں گا (یعنی جا کر ان سے بیعت ہو جاؤں گا) اور میں ضرور ان کو اپنے اوپر بخشش کرنے والا مہربان پاؤں گا۔ پھر وہ حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا اور عبداللہ بن ابی سرح حضرت عثمان کے پاس جا کر چھپ گیا اور جس وقت اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا بیعت فرمانے کے لئے تو حضرت عثمان نے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کر دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبداللہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت کر لیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ کی جانب تین مرتبہ دیکھا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ایک مرتبہ اس کو بیعت فرمانے سے انکار فرما دیا تین مرتبہ کے بعد پھر آخر کار اس کو بیعت کر لیا اس کے بعد حضرات صحابہ کرام کی جانب مخاطب ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی ایک شخص بھی سمجھ دار نہیں تھا کہ جو اٹھ کھڑا ہوتا اس کی جانب جس وقت مجھ کو دیکھتا کہ میں اس کو بیعت کرنے سے ہاتھ روک رہا ہوں تو اسی وقت عبداللہ کو قتل کر ڈالتا۔ ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک کی بات کا کس طریقہ سے علم ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ سے کس وجہ سے اشارہ نہیں فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نبی کی یہ شان نہیں ہے (یعنی نبی کے واسطے یہ مناسب نہیں ہے) کہ وہ آنکھ مچولی کرے۔

It was narrated that Ibn ‘Abbas said concerning Surat An Nahl — “Whoever disbelieved in Allah after his belief, except him who is forced thereto and whose heart is at rest with Faith; but such as open their breasts to disbelief, on them is wrath from Allah, and theirs will be a great torment.” “This was abrogated, and an exception was made, as Allah said: “Then, verily, your Lord for those who emigrated after they had been put to trials and thereafter strove hard and fought (for the Cause of Allah) and were patient, verily, your Lord afterward is, Oft-Forgiving, Most Merciful.” This was ‘Abdullah bin Saad bin Abi As-Sarh who was the governor of Egypt and used to write to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم The Shaitan misled him and he went and joined the unbelievers. So he (the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم commanded that he be killed on the day of the Conquest of Makkah. Then, ‘Uthman bin ‘Afan sought protection for him, and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم granted him protection.” (Hasan)

یہ حدیث شیئر کریں