جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1010

باب تفسیر سورت انعام

راوی: احمد بن منیع , اسحاق بن یوسف , ازرق , داؤد بن ابی ہند , شعبی , مسروق

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ کُنْتُ مُتَّکِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ يَا أَبَا عَائِشَةَ ثَلَاثٌ مَنْ تَکَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَی اللَّهِ الْفِرْيَةَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَی رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَی اللَّهِ وَاللَّهُ يَقُولُ لَا تُدْرِکُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِکُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ وَکُنْتُ مُتَّکِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْظِرِينِي وَلَا تُعْجِلِينِي أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَی وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَی وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ قَالَتْ أَنَا وَاللَّهِ أَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَنْ هَذَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا ذَاکَ جِبْرِيلُ مَا رَأَيْتُهُ فِي الصُّورَةِ الَّتِي خُلِقَ فِيهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنْ السَّمَائِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا کَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَی اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الرَّسُولَ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَی اللَّهِ وَاللَّهُ يَقُولُ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ يُکْنَی أَبَا عَائِشَةَ وَهُوَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَکَذَا کَانَ اسْمُهُ فِي الدِّيوَانِ

احمد بن منیع، اسحاق بن یوسف، ازرق، داؤد بن ابی ہند، شعبی، مسروق کہتے ہیم کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تکیہ لگائے بیٹھا تھا کہ انہوں نے فرمایا اے عائشہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان میں سے ایک بات بھی کی اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (شب معراج میں) اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے تو وہ اللہ پر جھٹ باندھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) 6۔ الانعام : 103) (اسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہ نہایت باریک بین خبردار ہے ۔) پھر فرماتا ہے (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَا ي ِ حِجَابٍ ) 42۔ الشوری : 51) (یعنی کوئی بشر اس (یعنی اللہ تعالی) سے وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے ہی سے بات کر سکتا ہے) راوی کہتے ہیں کہ میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا اٹھ کر بیٹھ گیا اور عرض کیا اے ام المومنین مجھے مہلت دیجئے اور جلدی نہ کیجئے کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَی (اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ النجم۔ آیت۔) نیز فرمایا (وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ) 81۔ التکویر : 23) (اور بیشک انہوں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے آسمان کے کنارے پر واضح دیکھا۔) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا اللہ کی قسم میں نے سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ جبرائیل تھے۔ میں نے انہیں ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے جسم نے آسمان و زمین کے درمیان پوری جگہ کو گھیر لیا ہے (2) اور جس نے سوچا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی نازل کی ہوئی چیز میں سے کوئی چیز چھپالی اس نے بھی اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( يٰ اَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّ غْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ) 5۔ المائدہ : 67) (اے رسول جو آپ کے رب نے آپ پر نازل کیا ہے اسے پورا پہنچا دیجئے۔) (3) اور جس نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کے متعلق جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے اس نے بھی اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ) 27۔ النمل : 65) (اللہ تعالیٰ کے علاوہ زمین و آسمان میں کوئی علم نہیں جانتا) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور مسروق بن اجدع کی کنیت ابوعائشہ ہے۔

Masruq said that he was sitting in a reclined position in the house of Sayyidah Aisha (RA). She said to him, ‘There are three things such that if anyone speaks one of them then he forges a lie against Allah.

(1) He who imagines that Muhammad saw his Lord forges a lie against Allah. Allah says: "Vision comprehends Him not, but He comprehends all vision. He is the Subtle, the Aware."(6:103) "And it is not (vouchsafed) to a mortal that Allah should speak to him, except by revelation or from behind a veil." (42 : 51)

Masruq said that he had been sitting reclined but sat up straight and said, “O Mother of the Believers! Give me respite. Do not hurry. Did not Allah say:

"And certainly he saw him yet another time." (53 : 15) "And certainly he saw him on the clear horizon." (81 : 23)

She said, “By Allah, I was the first one to ask Allah’s Messenger (SAW) about it and he said: 'That, indeed, was Jibril. I did not see him in the bodily formin which he was created but twice. I saw him coming down from heaven and I saw his body blocking out everything between heaven and earth.'

——————————————————————————–

(2) And if anyone imagines that Muhammad concealed anything of what Allah revealed to him then he has indeed forged a lie against Allah who says:

"O Messenger, convey that which has been revealed to you from your Lord." (5:67)

——————————————————————————–

(3) And, he who imagines that he knows what will happen the next day forges a lie against Allah, for, Allah says:

"None in the heavens and the earth knows the Unseen except Allah."

——————————————————————————–

(27: 65) (This means that no one in the heavens and earth except Allah has knowledge).

[Ahmed 26099, Bukhari 3234, Muslim 177]

یہ حدیث شیئر کریں