حضرت عمر وبن العاص
راوی:
وعن عقبة بن عامر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أسلم الناس وآمن عمرو بن العاص " . رواه الترمذي وقا ل : هذا حديث غريب وليس إسناده بالقوي
اور حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں نے تو اسلام قبول کیا اور عمرو بن العاص ایمان لائے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد قوی نہیں ۔"
تشریح :
لوگوں نے اسلام قبول کیا " میں " لوگوں " سے مکہ اور قریش کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے دن اس حالت میں اسلام قبول کیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا جب اسلام ایک فاتح طاقت کی حیثیت سے ان پر غالب آگیا تھا اور پیغمبر اسلام کے دامن عاطفت میں پناہ لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ ان کے سامنے نہیں رہ گیا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پھر ان کا ایمان مضبوط اور کامل ہوا اور وہ سب مخلص مؤمن ومسلمان بن گئے ان لوگوں کے برخلاف حضرت عمرو بن العاص فتح مکہ سے ایک سال پہلے برضا ورغبت ایمان لے آئے تھے ، اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت میں اپنا پیارا وطن مکہ چھوڑ کر ہجرت کی اور مدینہ منورہ آگئے تھے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گویا یہ جتلانا ہے کہ اہل قریش میں سے جو لوگ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ، انہوں نے تو ڈر کی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا ۔ جب کہ عمر و بن العاص برضا ورغبت اور اخلاص ویقین کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔
ایک شارح نے یہ لکھا ہے کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر خاص طور سے عمر و بن العاص کے برضا ورغبت ایمان لانے کا ذکر اس پس منظر کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے کیا جو ان کے قبول اسلام کا محرک وسبب بنا ۔ ہوا یہ تھا کہ حضرت عمر وبن العاص کو مکہ اور قریش کے سرداروں نے اپنا خصوصی نمائندہ بنا کر حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس اس مشن پر بھیجا تھا کہ وہ ان مسلمانوں کو حبش سے مکہ واپس لائیں جو مکہ سے ہجرت کرکے حبش چلے گئے تھے اور نجاشی کی پناہ میں تھے ، عمر وبن العاص نے اپنے اس مشن کے تحت جب نجاشی سے ان مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو نجاشی نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ، اور ان سے کہا : عمر و !مجھے بڑی حیرت ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے چچا کے بیٹے ہیں اور تم ان کی حقیقت سے بے خبر ہو! اللہ کی قسم ، وہ اللہ کے سچے رسول ہیں عمر و ( یہ سن کر ) بولے : آپ ایسا کہتے ہیں ؟ نجاشی نے کہا : ہاں اللہ کی قسم یہ میں کہہ رہا ہوں تم میری بات کو سچ مانو ، بس اسی وقت ان کے دل ودماغ میں نور ایمان کی کرن پھوٹی اور وہ اپنے مشن سے دست بردار ہو کر بار ادہ ایمان وہاں سے لوٹ پڑے کسی نے ان کو ایمان کی دعوت نہیں دی کسی نے ان کو اسلام کی طرف نہیں بلایا : از خود ان کی فطرت سلیم بیدار ہوگئی اپنے آپ قبول ایمان کا جذبہ ان میں امڈ پڑا اور وہ ڈورتے بھاگتے ہوئے مدینہ چلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرمشرف بایمان ہوئے اور مخلص وصادق مسلمان بن گئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بڑی پذیرائی کی ، یہاں تک کہ مسلمان ہوتے ہی ان کو ایسے لشکر کا سردار بنا دیا جس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی شامل تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ اعزاز اور یہ فضیلت اس بنا پر عطا فرمائی کہ وہ چونکہ قبول اسلام سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت عداوت رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے آزاروہلاکت کے بہت درپے رہتے تھے ، اس لئے قبول اسلام کے بعد وہ اپنے ماضی کے تئیں نہ صرف بہت دہشت زدہ بھی تھے بلکہ مسلمانوں کے درمیان خود کو اپنی نظر میں اجنبی اجنبی سا بھی محسوس کررہے تھے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دم اتنا بڑا اعزاز عطا فرمایا تاکہ ان کے دل ودماغ سے اس اجنبیت و وحشت کا اثر بھی زائل ہوجائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے کو مطمئن ومامون سمجھیں نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں ، ایک روایت میں آیا ہے کہ عمر و بن العاص جب قبول اسلام کے ارادہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خود ان کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا یا تاکہ وہ دست مبارک پر بیعت کرکے ایمان لائیں تو معًا انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ، عمرو! تم نے اپنا ہاتھ کیوں کھینچ لیا ، عمر و بولے : میں کچھ شرط کرنا چاہتا ہوں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا شرط ہے ؟ انہوں نے کہا : میں اس شرط پر ایمان لاتا ہوں کہ میں نے پہلے جو گناہ کئے ہیں ان کو معاف کردیا جائے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر و! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ڈھانپ لیتا ہے جو قبول اسلام سے پہلے کئے گئے ہوں اور ہجرت ان تمام گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے جو اس ہجرت سے پہلے کئے گئے ہوں اوکما قال ، ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمروبن العاص اور ان کے بھائی ہشام بن العاص دونوں (مخلص وصادق) مؤمن ہیں ایک حدیث میں فرمایا گیا : عمر و بن العاص ، قریش میں سے ہیں ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمروبن العاص کو مخاطب کرکے فرمایا : انک الرشید ( بلاشبہ تم ہدایت یافتہ ہو) اور یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ عمر وبن العاص اوروں سے بہتر صدقہ لے کر آئے ہیں ۔
حضرت عمرو بن العاص نہایت ذکی اور ذہین اور عقلمند انسان تھے ۔ تمام عرب میں ان کی دانائی اور ان کے تدبر کا لوہا مانا جاتا تھا ، حضرت عمر فاروق جب کسی احمق مالدار کو دیکھتے مالدار کو دیکھتے تو کہتے : سبحان اللہ جس ذات نے اس شخص کو پیدا کیا ہے اسی نے عمر و بن العاص کو بھی پیدا کیا منقول ہے کہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حضرت عمر وبن العاص پر خوف ، بے تابی ، اور بے قراری کا زبردست غلبہ ہوگیا تھا خشیت الہٰی کا غیر معمولی اثر ان پر نمایاں رہتا تھا ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک دن ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر وبولے ! بابا جان ، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے نگاہ رسالت میں آپ کو اعتبا رواعتماد کا بلند مقام حاصل تھا ، جہادوں میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رہا کرتے تھے پھر آپ پر آخر اتنی گھبراہٹ اور اتنا خوف کیوں طاری ہے ؟ حضرت عمرو بن العاص نے (یہ سن کر ) کہا : جان پدر! تم جانتے ہو میری پوری زندگی تین مرحلوں پر گزری ہے پہلے میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت معاند اور دشمن رہا ۔ پھر اللہ نے مجھے ہدایت فرمائی اور میں مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے بہرہ ور ہوتا رہا ۔ اور پھر میری امارت وحکمرانی کا دور آیا کہ اسلامی حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں عامل وحاکم کی حیثیت سے سرفراز رہا اور اس کے سبب دنیا سے جو کچھ حصہ مجھے ملنا تھا ملا ، اب میں نہیں جانتا کہ ان تینوں مرحلوں میں کس مرحلہ کے مطابق میرے ساتھ سلوک ہونا ہے اور کس طرح کا انجام میرے سامنے آنے والا ہے (اسی فکر میں ہر وقت لرزاں وترساں رہتا ہوں ) ۔