حضرت عمار بن یاسر
راوی:
وعن خالد بن الوليد قال : كان بيني وبين عمار بن ياسر كلام فأغلظت له في القول فانطلق عمار يشكوني إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فجاء خالد وهو يشكوه إلى النبي صلى الله عليه و سلم قال : فجعل يغلظ له ولا يزيده إلا غلظة والنبي صلى الله عليه و سلم ساكت لا يتكلم فبكى عمار وقال : يا رسول الله ألا تراه ؟ فرفع النبي صلى الله عليه و سلم رأسه وقال : " من عادى عمارا عاداه الله ومن أبغض عمارا أبغضه الله " . قال خالد : فخرجت فما كان شيء أحب إلي من رضى عمار فلقيته بما رضي فرضي
" اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر کسی معاملہ میں ) میرے اور عماربن یاسر کے درمیان گفتگو چل رہی تھی کہ میں نے ان کے خلاف ایک سخت بات کہہ دی ۔ چنانچہ عمار میری شکایت لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کر رہے تھے کہ ادھر سے خالد بھی آگئے ۔ راوی کا بیان ہے کہ (دربار رسالت میں اپنی شکایت سن کر ) خالد (کو غصہ آگیا اور وہ ) عمار کو سخت سست کہنے لگے اور ان کی سخت کلامی ودرشت گوئی میں اضافہ ہوتا رہا ، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ بیٹھے سن رہے تھے ، ایک حرف زبان سے نہ فرماتے تھے (یہ صورت حال دیکھ کر کہ خالد کی سخت گوئی بڑھتی جارہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہیں ) عمار (مارے غصہ کے صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور بے اختیار ) رونے لگے اور (بلکتے ہوئے ) بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) دیکھ نہیں رہے (کہ خالد کیا کر رہے ہیں اور آپ کے سامنے مجھ کو کیا کیا کہہ رہے ہیں ؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا : جو شخص عمار سے (زبان کی ) دشمنی رکھے گا ، اس کو اللہ دشمن رکھے گا اور جو شخص عمار سے (دل کا ) بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا " حضرت خالد کہتے کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سنتے ہی ہوش ٹھکانے آگئے اور میں نے یہ طے کر کے آپ کی مجلس سے ) باہر آیا (کہ جس طرح بھی ہوگا عمار کو خوش اور راضی کروں گا ) اور اس وقت کوئی چیز میری نظر میں عمار کے راضی وخوش ہوجانے سے زیادہ پسندیدہ اور بہتر نہیں تھی پھر یہ ہوا کہ میں نے عمار کو راضی وخوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ ایسا سلوک اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ وہ مجھ سے راضی وخوش ہوگئے (یعنی میں نے ان سے معافی کی تلافی کی ، ان کے گلے لگا ، ان کے ساتھ تواضع وانکساری سے پیش آنے لگا ، اور ان کو تحفے تحائف بھیجے اور ان سب باتوں نے ان کی ناراضگی اور ان کے غصہ کوزائل کر دیا اور وہ مجھ سے بالکل خوش ہوگئے ) ۔ "
تشریح :
" خالد بھی آگئے " یہ الفاظ اس راوی کے ہیں جس نے حضرت خالد سے اس روایت کونقل کیا ہے اور فجاء خالد سے پہلے قال کا لفظ محذوف ہے، اس کی تائید آگے عبارت میں قال خالد فخرجت کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے ۔ تاہم ایک شارح کے مطابق یہ احتمال بھی ہے کہ یہ الفاظ خود حضرت خالد کے ہوں اور بیان حال میں یہاں انہوں نے اسلوب بدل دیا ہو۔