موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب رہن کے بیان میں یعنی گروی رکھنے کے بیان میں ۔ حدیث 1380

اسباب میں عیب نکلنے کا بیان اور اس کا تاوان کس پر ہے ۔

راوی:

بَاب الْعَيْبِ فِي السِّلْعَةِ وَضَمَانِهَا قَالَ يَحْيَى سَمِعْت قَوْله تَعَالَى يَقُولُ فِي الرَّجُلِ يَبْتَاعُ السِّلْعَةَ مِنْ الْحَيَوَانِ أَوْ الثِّيَابِ أَوْ الْعُرُوضِ فَيُوجَدُ ذَلِكَ الْبَيْعُ غَيْرَ جَائِزٍ فَيُرَدُّ وَيُؤْمَرُ الَّذِي قَبَضَ السِّلْعَةَ أَنْ يَرُدَّ إِلَى صَاحِبِهِ سِلْعَتَهُ قَالَ مَالِك فَلَيْسَ لِصَاحِبِ السِّلْعَةِ إِلَّا قِيمَتُهَا يَوْمَ قُبِضَتْ مِنْهُ وَلَيْسَ يَوْمَ يَرُدُّ ذَلِكَ إِلَيْهِ وَذَلِكَ أَنَّهُ ضَمِنَهَا مِنْ يَوْمَ قَبَضَهَا فَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ نُقْصَانٍ بَعْدَ ذَلِكَ كَانَ عَلَيْهِ فَبِذَلِكَ كَانَ نِمَاؤُهَا وَزِيَادَتُهَا لَهُ وَإِنَّ الرَّجُلَ يَقْبِضُ السِّلْعَةَ فِي زَمَانٍ هِيَ فِيهِ نَافِقَةٌ مَرْغُوبٌ فِيهَا ثُمَّ يَرُدُّهَا فِي زَمَانٍ هِيَ فِيهِ سَاقِطَةٌ لَا يُرِيدُهَا أَحَدٌ فَيَقْبِضُ الرَّجُلُ السِّلْعَةَ مِنْ الرَّجُلِ فَيَبِيعُهَا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ وَيُمْسِكُهَا وَثَمَنُهَا ذَلِكَ ثُمَّ يَرُدُّهَا وَإِنَّمَا ثَمَنُهَا دِينَارٌ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَذْهَبَ مِنْ مَالِ الرَّجُلِ بِتِسْعَةِ دَنَانِيرَ أَوْ يَقْبِضُهَا مِنْهُ الرَّجُلُ فَيَبِيعُهَا بِدِينَارٍ أَوْ يُمْسِكُهَا وَإِنَّمَا ثَمَنُهَا دِينَارٌ ثُمَّ يَرُدُّهَا وَقِيمَتُهَا يَوْمَ يَرُدُّهَا عَشَرَةُ دَنَانِيرَ فَلَيْسَ عَلَى الَّذِي قَبَضَهَا أَنْ يَغْرَمَ لِصَاحِبِهَا مِنْ مَالِهِ تِسْعَةَ دَنَانِيرَ إِنَّمَا عَلَيْهِ قِيمَةُ مَا قَبَضَ يَوْمَ قَبْضِهِ قَالَ وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَنَّ السَّارِقَ إِذَا سَرَقَ السِّلْعَةَ فَإِنَّمَا يُنْظَرُ إِلَى ثَمَنِهَا يَوْمَ يَسْرِقُهَا فَإِنْ كَانَ يَجِبُ فِيهِ الْقَطْعُ كَانَ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَإِنْ اسْتَأْخَرَ قَطْعُهُ إِمَّا فِي سِجْنٍ يُحْبَسُ فِيهِ حَتَّى يُنْظَرَ فِي شَأْنِهِ وَإِمَّا أَنْ يَهْرُبَ السَّارِقُ ثُمَّ يُؤْخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَلَيْسَ اسْتِئْخَارُ قَطْعِهِ بِالَّذِي يَضَعُ عَنْهُ حَدًّا قَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ يَوْمَ سَرَقَ وَإِنْ رَخُصَتْ تِلْكَ السِّلْعَةُ بَعْدَ ذَلِكَ وَلَا بِالَّذِي يُوجِبُ عَلَيْهِ قَطْعًا لَمْ يَكُنْ وَجَبَ عَلَيْهِ يَوْمَ أَخَذَهَا إِنْ غَلَتْ تِلْكَ السِّلْعَةُ بَعْدَ ذَلِكَ

کہا مالک نے ایک شخص جانور یا کپڑا یا اور کوئی اسباب خریدے پھر یہ بیع ناجائز معلوم ہو اور مشتری (خریدنے والا) کو حکم ہو کہ وہ چیز بائع (بچنے والا) کو پھیر دے (حالانکہ اس شئے میں کوئی عیب ہوجائے) تو بائع (بچنے والا) کو اس شئے کی قیمت ملے گی اس دن کی جس دن کہ وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی تھی نہ کہ اس دن کی جس دن وہ پھیرتا ہے کیونکہ جس دن سے وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی تھی اس دن سے وہ اس کا ضامن ہو گیا تھا اب جو کچھ اس میں نقصان ہوجائے وہ اسی پر ہوگا اور جو کچھ زیادتی ہوجائے وہ بھی اسی کی ہوگی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مال ایسے وقت میں لیتا ہے جب اس کی قدر اور تلاش ہو پھر اس کو وقت میں پھیر دیتا ہے جب کہ وہ بے قدر ہو کوئی اس کو نہ پوچھے تو آدمی ایک شئے خریدتا ہے دس دینار کو پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے اور پھیرتا ہے ایسے وقت میں جب اس کی قیمت ایک دینار ہو تو یہ نہیں ہوسکتا کہ بے چارے بائع (بچنے والا) کا نو دینار کا نقصان کرے یا جس دن خریدا اسی دن اس کی قیمت ایک دینار تھی پھر پھیرتے وقت اس کی قیمت دس دینار ہوگئی تو بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) کو ناحق نو دینار کا نقصان دے اسی واسطے وہ قیمت اس دن کی واجب ہوئی جس دن کہ وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی ہو۔

Yahya said that he heard Malik speak about a man who bought goods – animals or clothes or wares, and the sale was found not to be permitted so it was revoked and the one who had taken the goods was ordered to return the owner his goods. Malik said, "The owner of the goods only has their value on the day they were taken from him, and not on the day they are returned to him. That is because the man is liable for them from the day he took them and whatever loss is in them after that is against him. For that reason, their increase and growth are also his. A man may take the goods at a time when they are selling well and are in demand, and then have to return them at a time when they have fallen in price and no one wants them. For instance, the man may take the goods from the other man, and sell them for ten dinars or keep them while their price is that. Then he may have to return them while their price is only a dinar. He should not go off with nine dinars from the man's property. Or perhaps they are taken by the man, and he sells them for a dinar or keeps them, while their price is only a dinar, then he has to return them, and their value on the day he returns them is ten dinars. The one who took them does not have to pay nine dinars from his property to the owner. He is only obliged to pay the value of what he took possession of on the day it was taken ."
He said, "Part of what clarifies this is that when a thief steals goods, only their price on the day he stole them is looked at. If cutting off the hand is necessary because of it, that is done. If the cutting off is delayed, either because the thief is imprisoned until his situation is examined or he flees and then is caught, the delay of the cutting off of the hand does not make the hadd, which was obliged for him on the day he stole, fall from him even if those goods become cheap after that. Nor does delay oblige cutting off the hand if it was not obliged on the day he took those goods, even if they become expensive after that."

یہ حدیث شیئر کریں