حضرت بلال
راوی:
وعن قيس بن أبي حازم أن بلالا قال لأبي بكر : إن كنت إنما اشتريتني لنفسك فأمسكني وإن كنت إنما اشتريتني لله فدعني وعمل الله . رواه البخاري
اور حضرت قیس بن ابی حازم (تابعی ) سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تھا کہ : اگر آپ نے اپنی ذاتی خوشی کے لئے مجھ کو خریدا تھا تو مجھ کو اپنے پاس رکھ لیجئے ( اور جس خدمت پر چاہیں مامور کردیجئے ) لیکن اگر آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لئے خریدا تھا تو پھر مجھ کو اللہ کے کام کے لئے آزاد چھوڑ دیجئے ۔ ' (بخاری )
تشریح :
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس گفتگو کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ایک غلام تھے اور دشمنان دین کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بڑی رقم خرچ کر کے ان کو خریدا اور آزاد کردیا ، اس کے بعد وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی خادموں میں شامل ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان دینے کی خدمت پر مامور کردیا اور وصال نبی تک حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ خدمت انجام دیتے رہے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو عشق نبوی سے سرشار حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مدینہ کا قیام ایک بڑی آزمائش بن گیا ۔ اس تصور ہی سے ان کا پیمانہ صبر چھلک جاتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ ہوں اور وہ مسجد نبوی کی طرف دیکھیں اور اس میں جا کر اذان دیں ، چنانچہ انہوں نے ملک شام چلے جانا کا ارادہ کر لیا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روکنا چاہا اور ان سے درخواست کی کہ آپ یہیں میرے پاس رہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرف مسجد نبوی میں اذان دیتے رہے ، اس وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات کہی کہ اگر آپ نے مجھ کو اس لئے خریدا تھا کہ میں آپ کی خوشی اور آپ کی خواہش کی تکمیل کرتا رہوں تو میں آپ کی بات ماننے پر مجبور ہوں جو بھی خدمت آپ میرے سپرد کریں گے اس کو انجام دینا اپنا فرض سمجھوں گا لیکن اگر آپ نے مجھ کو اس مقصد کے نہیں خریدا تھا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر خریدا اور آزاد کیا تو پھر میں چاہوں گا کہ آپ مجھ کو اپنا پابند نہ بنائیں ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے کہ میں جہاں چاہوں چلا جاؤں اور مخلوق سے کوئی سروکار نہ رکھتے ہوئے اپنے خالق کے کاموں میں ہمہ تن اور ہمہ مصروف رہوں ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت بلال نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھ کو گوارا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر اس طرف نظر اٹھاؤں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رہا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر اب یہاں رہنا میرے لئے نا ممکن ہے۔
چہ مشکل ترا زین بر عاشق زار کے بے دلدار بیند جائے دلدار
اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اس لشکر میں شامل ہو کر سوئے دمشق روانہ ہوگئے جو شام جارہا تھا ، پھر آخر عمر تک وہیں قیام پذیر رہے یہاں تک کہ ١٨ھ یا ایک روایت کے مطابق ٢٠ھ میں واصل بحق ہوئے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ روایت کے بالکل بے بنیاد ہے جس میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شام جانے اور پھر وہاں خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر مدینہ لوٹ آنے اور مسجد نبوی میں اذان دینے اور اتنے دنوں بعد ان کی آذان سن کر مدینہ اور اہل مدینہ کے لرز جانے کا ذکر ہے ۔