مال فئے کی تقسیم
راوی: علی بن حجر , اسماعیل یعنی ابن ابراہیم , ایوب , عکرمة بن خالد , مالک بن اوس بن حدثان
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِکْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ جَائَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ إِلَی عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا فَقَالَ النَّاسُ افْصِلْ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عُمَرُ لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ قَالَ فَقَالَ الزُّهْرِيُّ وَلِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُو بَکْرٍ بَعْدَهُ ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَکْرٍ فَصَنَعْتَ فِيهَا الَّذِي کَانَ يَصْنَعُ ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَی أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَکْرٍ وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا وَأَخَذْتُ عَلَی ذَلِکَ عُهُودَهُمَا ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ ابْنِ أَخِي وَيَقُولُ هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ امْرَأَتِي وَإِنْ شَائَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَی أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَکْرٍ وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا وَإِنْ أَبَيَا کُفِيَا ذَلِکَ ثُمَّ قَالَ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ هَذَا لِهَؤُلَائِ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ هَذِهِ لِهَؤُلَائِ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًی عَرَبِيَّةً فَدْکُ کَذَا وَکَذَا فَ مَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ أَوْ قَالَ حَظٌّ إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِکُونَ مِنْ أَرِقَّائِکُمْ وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ أَوْ قَالَ حَظُّهُ
علی بن حجر، اسماعیل یعنی ابن ابراہیم، ایوب، عکرمہ بن خالد، مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی دونوں حضرات جھگڑا کرتے ہوئے (یعنی اختلاف کرتے ہوئے آئے) اس مال کے سلسلہ میں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا جیسے کہ فدک اور قبیلہ بنو نضیر اور غزوہ خیبر کا خمس کہ جس کو حضرت عمر نے اپنی خلافت میں اب دونوں حضرات کو سپرد کر دیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ میرا اور ان کا فیصلہ فرما دیں۔ حضرت عمر نے فرمایا میں کبھی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اس مال کو میں تقسیم نہیں کروں گا) اس لئے کہ دونوں کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا اور ہم لوگ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال کے متولی رہے اور اس میں سے اپنے گھر کے خرچ کے مطابق لے لیتے اور باقی اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اس کے متولی رہے پھر حضرت ابوبکر کے بعد میں اس کا متولی رہا۔ میں نے بھی اسی طریقہ سے کیا کہ جس طریقہ سے حضرت ابوبکر کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے لوگوں کو خرچہ کے مطابق دے دیا کرتے تھے اور باقی بیت المال میں جمع فرماتے پھر یہ دونوں (یعنی حضرت عباس اور حضرت علی) میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ وہ مال ہمارے حوالے فرما دیں ہم اس میں سے اسی طریقہ سے عمل کریں گے کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور حضرت ابوبکر صدیق) عمل فرماتے تھے اور جس طریقہ سے تم عمل کرتے رہے میں نے وہ مال دونوں کے سپرد کر دیا اور دونوں سے اقرار لے لیا اب یہ دونوں پھر واپس آگئے ہیں ایک کہتا ہے میرا حصہ میرے بھتیجے سے واپس دلا (یعنی حضرت عباس سے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے) اور دوسرا شخص کہتا ہے کہ میرا حصہ میری اہلیہ کی جانب سے دلا (یعنی حضرت علی کیونکہ وہ شوہر تھے حضرت فاطمہ کے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محترم صاحب زادی تھیں) اگر ان کو منظور ہو تو وہ مال میں ان کے سپرد کرتا ہوں اس شرط پر کہ اس طرح سے عمل فرمائیں کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل فرماتے تھے اور ان کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا ہے اور ان کے بعد میں نے یہ کیا ہے اور جو ان کو منظور نہ ہو تو وہ اپنے گھر بیٹھ جائیں (اور جو مال ہے وہ ہمارے پاس ہی رہے گا) پھر حضرت عمر نے فرمایا قرآن کریم میں دیکھو کہ اللہ تعالیٰ مال غنیمت سے متعلق فرماتا ہے کہ اس میں سے خمس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رشتہ داروں اور یتامی مساکین اور عاملین اور مسافروں کا ہے اور صدقات کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ فقراء اور مساکین اور عاملین اور مؤلفة قلوب اور غلاموں اور قرض داروں اور مجاہدین کے واسطے ہیں اور اس مال کو بھی حضرت نے صدقہ و خیرات فرمایا تو اس میں بھی فقراء و مساکین اور تمام اہل اسلام کا حق ہوگا اور اس میں کچھ مال غنیمت ہے اس میں بھی اس سب کا حق ہے پھر ارشاد الٰہی ہے کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مال عطاء فرمایا اور (تم نے اس کے حاصل کرنے میں) اپنے گھوڑے اور سواریاں نہیں دوڑائیں (یعنی جنگ اور قتل و قتال کے بغیر جو مال ہاتھ آگیا) راوی زہری نے نقل فرمایا البتہ یہ مال خاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور وہ چند گاؤں عربیہ یا عرینہ کے اور فدک اور فلاں اور فلاں مگر اس مال کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنایت فرمایا گاؤں والوں سے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور رشتہ داروں کا اور یتامی اور مساکین کا اور مسافروں کا ہے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان فقراء کا بھی اس میں حق ہے جو کہ اپنے مکان چھوڑ کر آئے اور اپنے مکانات سے نکال دئیے گئے اور اپنے مالوں سے محروم کر دیئے گئے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ ان سے پہلے دارالسلام میں آچکے تھے اور ایمان لا چکے تھے پھر ارشاد ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ جو کہ ان لوگوں کے بعد مسلمان ہو کر آئے تو اس آیت کریمہ نے تمام مسلمانوں کو احاطہ کر لیا اب کوئی مسلمان باقی نہیں رہا ہے کہ جس کا حق اس مال میں نہ ہو یا اس کا کچھ حصہ نہ ہوالبتہ تم لوگوں کے بعض اور باندی ہی رہ گئے ان کا حصہ اس مال میں نہیں ہے (وہ محروم ہیں) اور میں زندہ رہوں گا تو البتہ اللہ چاہے تو ہر ایک مسلمان کو اس میں سے کچھ نہ کچھ حق یا حصہ ملے گا۔
It was narrated that ‘Ubadah bin As-Samit said: “We pledged to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, to hear and obey, both in times of hardship and ease.” And he mentioned similarly. (Sahih)