سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1426

جب امام جنازہ کی نماز پڑھائے تو اس کو میت کے کسی حصہ جسم کو مقابل کھڑ ہونا چاہئے

راوی: داؤد بن معاذ , عبدالوارث , نافع , ابوغالب

حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ نَافِعٍ أَبِي غَالِبٍ قَالَ کُنْتُ فِي سِکَّةِ الْمِرْبَدِ فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ مَعَهَا نَاسٌ کَثِيرٌ قَالُوا جَنَازَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ فَتَبِعْتُهَا فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ عَلَيْهِ کِسَائٌ رَقِيقٌ عَلَی بُرَيْذِينَتِهِ وَعَلَی رَأْسِهِ خِرْقَةٌ تَقِيهِ مِنْ الشَّمْسِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا الدِّهْقَانُ قَالُوا هَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ فَلَمَّا وُضِعَتْ الْجَنَازَةُ قَامَ أَنَسٌ فَصَلَّی عَلَيْهَا وَأَنَا خَلْفَهُ لَا يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْئٌ فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَکَبَّرَ أَرْبَعَ تَکْبِيرَاتٍ لَمْ يُطِلْ وَلَمْ يُسْرِعْ ثُمَّ ذَهَبَ يَقْعُدُ فَقَالُوا يَا أَبَا حَمْزَةَ الْمَرْأَةُ الْأَنْصَارِيَّةُ فَقَرَّبُوهَا وَعَلَيْهَا نَعْشٌ أَخْضَرُ فَقَامَ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا فَصَلَّی عَلَيْهَا نَحْوَ صَلَاتِهِ عَلَی الرَّجُلِ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ الْعَلَائُ بْنُ زِيَادٍ يَا أَبَا حَمْزَةَ هَکَذَا کَانَ يَفْعَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَی الْجَنَازَةِ کَصَلَاتِکَ يُکَبِّرُ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَيَقُومُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَعَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ يَا أَبَا حَمْزَةَ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ غَزَوْتُ مَعَهُ حُنَيْنًا فَخَرَجَ الْمُشْرِکُونَ فَحَمَلُوا عَلَيْنَا حَتَّی رَأَيْنَا خَيْلَنَا وَرَائَ ظُهُورِنَا وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ يَحْمِلُ عَلَيْنَا فَيَدُقُّنَا وَيَحْطِمُنَا فَهَزَمَهُمْ اللَّهُ وَجَعَلَ يُجَائُ بِهِمْ فَيُبَايِعُونَهُ عَلَی الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَلَيَّ نَذْرًا إِنْ جَائَ اللَّهُ بِالرَّجُلِ الَّذِي کَانَ مُنْذُ الْيَوْمَ يَحْطِمُنَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ فَسَکَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجِيئَ بِالرَّجُلِ فَلَمَّا رَأَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُبْتُ إِلَی اللَّهِ فَأَمْسَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُبَايِعُهُ لِيَفِيَ الْآخَرُ بِنَذْرِهِ قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَتَصَدَّی لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَأْمُرَهُ بِقَتْلِهِ وَجَعَلَ يَهَابُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يَصْنَعُ شَيْئًا بَايَعَهُ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَذْرِي فَقَالَ إِنِّي لَمْ أُمْسِکْ عَنْهُ مُنْذُ الْيَوْمَ إِلَّا لِتُوفِيَ بِنَذْرِکَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَوْمَضْتَ إِلَيَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يُومِضَ قَالَ أَبُو غَالِبٍ فَسَأَلْتُ عَنْ صَنِيعِ أَنَسٍ فِي قِيَامِهِ عَلَی الْمَرْأَةِ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا فَحَدَّثُونِي أَنَّهُ إِنَّمَا کَانَ لِأَنَّهُ لَمْ تَکُنْ النُّعُوشُ فَکَانَ الْإِمَامُ يَقُومُ حِيَالَ عَجِيزَتِهَا يَسْتُرُهَا مِنْ الْقَوْمِ قَالَ أَبُو دَاوُد قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ نُسِخَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَفَائُ بِالنَّذْرِ فِي قَتْلِهِ بِقَوْلِهِ إِنِّي قَدْ تُبْتُ

داؤد بن معاذ، عبدالوارث، نافع، حضرت ابوغالب سے روایت ہے کہ سکتہ المربد (ایک جگہ کا نام) میں تھا کہ ہمارے قریب سے ایک جنازہ گزرا جس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمر کا جنازہ ہے یہ سن کر میں بھی اس کے پیچھے چلا تو میں نے ایک شخص کو دیکھا جو باریک چادر اوڑھے ہوئے تھا اور ایک چھوٹے گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے دھوپ سے بچاؤ کے لئے اپنے سر پر کپڑے کا ایک ٹکڑا ڈال رکھا تھا میں نے پوچھا یہ چودھری کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت انس بن مالک ہیں۔ پس نماز جنازہ جب رکھ دیا گیا تو حضرت انس کھڑے ہوئے اور انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی میں ان کے پیچھے اس طرح کھڑا تھا کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی پس وہ میت کے سر کے مقامل کھڑے ہوئے اور چار تکبیرات کہیں وہ تکبیرات نہ بہت جلدی جلدی کہیں اور نہ بہت دیر دیر سے اس کے بعد وہ بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا اے ابوحمزہ! (یہ حضرات انس کی کنیت ہے) یہ ایک انصاری عورت کا جنازہ ہے۔ (آپ اس کی بھی نماز پڑھا دیجئے) پھر وہ اس کی میت کو ان کے قریب لے آئے جو ایک سبز رنگ کے تابوت میں تھی پس حضرت انس اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے اور اسی طرح اس کی بھی نماز پڑھائی جس طرح مرد کی نماز پڑھائی تھی اس کے بعد وہ بیٹھ گئے۔ علاء ابن زیاد نے ان سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح جنازہ کی نماز پڑھاتے تھے جس طرح تم نے چار تکبیرات کے ساتھ نماز پڑھائی ہے اور کیا آپ بھی مرد کے جنازہ کی صورت میں اس کے سر کے مقابل اور عورت کا جنازہ ہونے کی صورت میں اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! (آپ بھی اسی طرح نماز پڑھتے تھے) علاء بن زیاد نے دوسرا سوال کیا کہ اے ابوحمزہ! کیا آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں شرکت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں میں غزوہ حنین میں آپ کے ساتھ شریک جہاد تھا پس مشرکین نکلے اور ہم پر حملہ آور ہوئے یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پشت کی طرف دیکھا (یعنی ہمیں پسپائی اختیار کرنی پڑی اور ہم میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے) ان مشرکین میں ایک شخص تھا جو ہم پر تلوار لے کر حملہ کرتا تھا اور ہمیں مارتا تھا پھر اللہ نے اس کو شکست دی (اور ہم کو فتح نصیب فرمائی) اس کے بعد اسیران جنگ لائے جانے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام کے لئے بیعت کرنے لگے ایک شخص نے جو آپ کے اصحاب میں سے تھا یہ منت مانی تھی کہ اگر وہ شخص قیدی بنا کر لایا گیا جو اس دن ہم پر (حملے کر رہا تھا اور ہمیں مار رہا تھا تو میں اس کو قتل کروں گا یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو رہے پھر وہ شخص قیدی بنا کر لایا گیا جب اس نے آپ کو دیکھا تو بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے اللہ سے توبہ کی۔ آپ نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور اس خیال سے بیعت کرنے میں توقف کیا تاکہ وہ صحابی اپنی منت پوری کر لے۔ (یعنی اس کو قتل کر دے) لیکن وہ صحابی اس انتظار میں رہے کہ جب آپ مجھے اس کے قتل کا حکم فرمائیں گے تو میں اس کو قتل کر دوں گا کیونکہ وہ اس بات سے ڈر رہے تھے کہ کہیں میں اس کو قتل کر ڈالوں اور آپ ناراض نہ ہو جائیں۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ صحابی کچھ نہیں کر رہے ہیں تو (مجبور ہو کر) اس سے بیعت لے لی تب وہ صحابی بولے یا رسول اللہ! اب میری منت کس طرح پوری ہو گی؟ آپ نے فرمایا میں اب تک جو بیعت لینے میں توقف کرتا رہا تھا وہ اسی خیال سے تھا کہ تو اپنی منت پوری کر ڈالے (مگر تو نے پوری نہ کی) وہ بولے یا رسول اللہ! آپ نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیوں نہ کر دیا؟ آپ نے فرمایا آنکھ سے خفیہ اشارہ کرنا نبی کی شان نہیں ہے۔ اس کے بعد ابوغالب نے کہا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ حضرت انس عورت کی کمر کے مقابل کیوں کھڑے ہوئے تھے؟ لوگوں نے کہا اس لئے کہ پہلے زمانہ میں تابوت نہ ہوتا تھا اور امام عورت کے کمر کے سامنے کھڑا ہونا تھا تاکہ لوگوں سے اس کی پردہ پوشی رہے۔

Narrated Anas ibn Malik:
Nafi' AbuGhalib said: I was in the Sikkat al-Mirbad. A bier passed and a large number of people were accompanying it.
They said: Bier of Abdullah ibn Umayr. So I followed it. Suddenly I saw a man, who had a thin garment on riding his small mule. He had a piece of cloth on his head to protect himself from the sun. I asked: Who is this important man? People said: This is Anas ibn Malik.
When the bier was placed, Anas stood and led the funeral prayer over him while I was just behind him, and there was no obstruction between me and him. He stood near his head, and uttered four takbirs (Allah is Most Great). He neither lengthened the prayer nor hurried it. He then went to sit down. They said: AbuHamzah, (here is the bier of) an Ansari woman. They brought her near him and there was a green cupola-shaped structure over her bier. He stood opposite her hips and led the funeral prayer over her as he had led it over the man. He then sat down.
Al-Ala' ibn Ziyad asked: AbuHamzah, did the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say the funeral prayer over the dead as you have done, uttering four takbirs (Allah is Most Great) over her, and standing opposite the head of a man and the hips of a woman?
He replied: Yes. He asked: AbuHamzah, did you fight with the Apostle of Allah? He replied: Yes. I fought with him in the battle of Hunayn. The polytheists came out and invaded us so severely that we saw our horses behind our backs. Among the people (i.e. the unbelievers) there was a man who was attacking us, and striking and wounding us (with his sword). Allah then defeated them. They were then brought and began to take the oath of allegiance to him for Islam.
A man from among the companions of the Prophet (peace_be_upon_him) said: I make a vow to myself that if Allah brings the man who was striking us (with his sword) that day, I shall behead him. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) kept silent and the man was brought (as a captive).
When he saw the Apostle of Allah (peace_be_upon_him), he said: Apostle of Allah, I have repented to Allah. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) stopped (for a while) receiving his oath of allegiance, so that the other man might fulfil his vow. But the man began to wait for the order of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) for his murder. He was afraid of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) to kill him. When the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) saw that he did not do anything, he received his oath of allegiance. The man said: Apostle of Allah, what about my vow? He said: I stopped (receiving his oath of allegiance) today so that you might fulfil your vow. He said: Apostle of Allah, why did you not give any signal to me? The Prophet (peace_be_upon_him) said: It is not worthy of a Prophet to give a signal.
AbuGhalib said: I asked (the people) about Anas standing opposite the hips of a woman. They told me that this practice was due to the fact that (in the days of the Prophet) there were no cupola-shaped structures over the biers of women. So the imam used to stand opposite the hips of a woman to hide her from the people.

یہ حدیث شیئر کریں