باب
راوی: احمد بن حسن , عبداللہ بن مسلمہ , مالک بن انس , ابونضر , عبید بن حنین , ابوسعید خدری
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ قَالَ إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَائَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ فَدَيْنَاکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا قَالَ فَعَجِبْنَا فَقَالَ النَّاسُ انْظُرُوا إِلَی هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَائَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ وَهُوَ يَقُولُ فَدَيْنَاکَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ هُوَ الْمُخَيَّرُ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَکْرٍ وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِيلًا وَلَکِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ لَا تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةُ أَبِي بَکْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
احمد بن حسن، عبداللہ بن مسلمہ، مالک بن انس، ابونضر، عبید بن حنین، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر تشریف فرما ہونے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو ختیار دیا کہ چاہے تو دنیاوی زندگی کی زینت کو اختیار کرلے اور اگر چاہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے والی چیزوں کو ختیار کر لے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ہم اپنے آباء اور امہات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کی اس بات پر تعجب کرنے لگے اور لوگ کہنے لگے کہ اس شیخ کو دیکھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی کے متعلق بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دنیاوی اور اخروی زندگی میں سے ایک چیز اختیار کرنے کے لئے کہا اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان۔ چنانچہ (حقیقت) میں اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو دیا گیا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سے زیادہ سمجھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ دوستی کا حق ادا کرنے والے اور سب سے زیادہ مال خرچ کرنے والے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو یقینا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے مستحق تھے لیکن اسلام کی اخوت ہی کافی ہے۔ (سنو) مسجد میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کھڑکی کے علاوہ کوئی کھڑکی نہ رہے۔ (ا سے مراد وہ کھڑکیاں ہیں جو لوگوں نے مسجد میں آنے جانے کیلئے بنائی ہوئی تھیں یہ مسجد میں کھلتی تھیں۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Sa’eed reported that Allah’s Messenger (SAW) sat down on the pulpit and said, “Allah has given choice to a slave between receiving the pleasures of the world whatever he wishes and what is with Allah.” Abu Bakr said, “May we ransom to you, 0 Messenger of Allah, our fathers and our mothers!”
The narrator said, “We were surprised and people said: Look at this shaykh Allah’s Messenger r.L informs us of a man whom Allah has given choice between the pleasures of this world as much as he wishes and what is with Allah, and he says may our parents be ransomed to you.”
But, AlIah,s Messenger (SAW) was the one given the choice and Abu Bakr knew better than the others, The Prophet (SAW) said, “Surely, the most favouring one to me with his companionship and his wealth is Abu Bakr. And, if I were to pick a friend, I would take Abd Bakr as a friend, but Islamic fraternity (is enough). Let not there remain any window in the mosque, but the window of Abu Bakr.”
[Bukhari 3904, Muslim 2382]
——————————————————————————–