اس آیت کریمہ"وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط" کی تفسیر اور اس حدیث میں عکرمہ پر اختلاف سے متعلق
راوی: قاسم بن زکریا بن دینار , عبیداللہ بن موسی , علی , بن صالح , سماک , عکرمة , ابن عباس
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی قَالَ أَنْبَأَنَا عَلِيٌّ وَهُوَ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ قُرَيْظَةُ وَالنَّضِيرُ وَکَانَ النَّضِيرُ أَشْرَفَ مِنْ قُرَيْظَةَ وَکَانَ إِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْظَةَ رَجُلًا مِنْ النَّضِيرِ قُتِلَ بِهِ وَإِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ النَّضِيرِ رَجُلًا مِنْ قُرَيْظَةَ أَدَّی مِائَةَ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ فَلَمَّا بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ النَّضِيرِ رَجُلًا مِنْ قُرَيْظَةَ فَقَالُوا ادْفَعُوهُ إِلَيْنَا نَقْتُلْهُ فَقَالُوا بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَوْهُ فَنَزَلَتْ وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَالْقِسْطُ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ ثُمَّ نَزَلَتْ أَفَحُکْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ
قاسم بن زکریا بن دینار، عبیداللہ بن موسی، علی، بن صالح، سماک، عکرمة، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) قریضہ اور بنو نضیر ان دونوں میں قبیلہ بنو نضیر کا مقام زیادہ تھا۔ جس وقت کوئی آدمی قبیلہ قریضہ میں سے بنو نضیر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تھا تو (قتل کرنے کی وجہ سے) وہ قتل کر دیا جاتا اور جس وقت قبیلہ بنو نضیر کا کوئی شخص قبیلہ قریضہ کے کسی شخص کو قتل کرتا تو ایک سو وسق کھجور (بطور دیت) ادا کرنا پڑتی۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر ہو گئے تو قبیلہ بنو نضیر کے ایک شخص نے قبیلہ قریضہ کے ایک شخص کو قتل کر دیا۔ اس پر قبیلہ قریضہ کے لوگوں نے کہا اس قاتل کو ہمارے سپرد کر دو ہم اس کو قتل کریں گے۔ قبیلہ بنو نضیر نے کہا ہمارے اور تمہارے درمیان اس مسئلہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیصلہ فرمائیں گے۔ چنانچہ وہ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ( وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ) 5۔ المائدہ : 42) یعنی اگر ان کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یعنی جان کے عوض جان لی جائے۔ اس کے بعد آیت نازل ہوئی ) (اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ) 5۔ المائدہ : 50) ( کیا تم دور جاہلیت کے رواج پسند کرتے ہو؟
It was narrated that Qais bin ‘Ubad said: “Al-Ashtar and I went to ‘All, may Allah be pleased with him, and said: ‘Did the Prophet of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم tell you anything that he did not tell to all the people?’ He said: ‘No, except what is in this letter of mine.’ He brought out a letter from the sheath of his sword and it said therein: ‘The lives of the believers are equal in value, and they are one against others, and they hasten to support the asylum granted by the least of them. But no believer may be killed in return for a disbeliever, nor one with a covenant while his covenant is in effect. Whoever commits an offense then the blame is on himself, and whoever gives sanctuary to an offender, then upon him will be the curse of Allah, the angels and all the people.” (Sahih)