باب
راوی: حسین بن حریث ابوعمار مروزی , علی بن حسین بن واقد , ان کے والد , عبداللہ بن بریدة , بریدہ
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ يَا بِلَالُ بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَی الْجَنَّةِ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِي فَأَتَيْتُ عَلَی قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشْرِفٍ مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ فَقَالُوا لِرَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ فَقُلْتُ أَنَا عَرَبِيٌّ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ قُلْتُ أَنَا قُرَشِيٌّ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ قُلْتُ أَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ بِلَالٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَکْعَتَيْنِ وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ رَکْعَتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَمُعَاذٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ لِمَنْ هَذَا فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ يَعْنِي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ کَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ هَکَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ رُؤْيَا الْأَنْبِيَائِ وَحْيٌ
حسین بن حریث ابوعمار مروزی، علی بن حسین بن واقد، ان کے والد، عبداللہ بن بریدة، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور پوچھا کہ اے بلال کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں داخل ہونے میں مجھ سے سبقت لے گئے کیونکہ میں جب بھی جنت میں گیا تو اپنے سامنے تمہارے چلنے کی آہٹ محسوس کی۔ آج رات بھی جب میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں تمہارے چلنے کی آہٹ پہلے سے موجود تھی پھر میں ایک سونے سے بنے ہوئے چوکور اور اونچے محل کے پاس سے گزرا تو پوچھا کہ یہ محل کس کے لئے ہے؟ کہنے لگے کہ ایک عربی کا؟ میں نے کہا عربی تو میں بھی ہوں کہنے لگے قریش میں سے ایک شخص کا؟ میں نے کہا قریشی تو میں بھی ہوں کہنے لگے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ایک شخص کا میں نے کہا میں محمد ہوں یہ محل کس کا ہے؟ کہنے لگے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ۔ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اپنی آہٹ جنت میں سنے جانے کے متعلق جواب دیتے ہوئے) عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب بھی اذان دیتا ہوں اس سے پہلے دو رکعت پڑھتا ہوں اور جب بھی میں بے وضو ہو جاتا ہوں تو فوراً وضو کر لیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اللہ کے لئے دو رکعت نماز پڑھنا اس کا حق ہے (لہذا دو رکعت ادا کرتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ تم جنت میں مجھ سے پہلے ہوتے ہو اس باب میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے پوچھا کہ یہ کس کے لئے ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے حدیث میں جو یہ فرمایا کہ میں گزشتہ رات جنت میں داخل ہوا اس سے مراد یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں۔ بعض احادیث میں اسی طرح منقول ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔
Sayyidina Abu Buraydah (RA) narrated: One morning, Allah’s Messenger called Bilal and said, “0 Bilal, with what did you overtake me to Paradise? Indeed, I did not enter paradise but heard the rusutle of your footsteps ahead of me. I entered paradise last night and heard your steps ahead of me till I came to a castle square and lofty made of gold. I asked, “To whom does this castle belong?” They said, ‘A man of the Arabs,’ and I said, “I am an Arab. for whom is this castle?’ They said, ‘For a man of the Quraysh,’ so I said, ‘I am a Quraysh, for whom is it?” They said, ‘For a man of Muhammad’s Ummah.’ I said, ‘lam Muhammad’s and for whom is the castle?’ They said, ‘For Umar ibn al-Khattab.” Bilal said, “0 Messenger of Allah! I never call the adhan but offer two raka’at prayer (before that) and whenever I relieve myself or break wind, I make a fresh ablution. I am convinced that to offer two raka’at is Allah’s right on me.” Allah’s Messenger said, “Because of both these things (you preceded me to paradise).”
[Ahmed 23102]
——————————————————————————–