سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ قسامت کے متعلق ۔ حدیث 1088

تلوار کے علاوہ دوسری چیز سے قصاص لینے کے بارے میں

راوی: اسماعیل بن مسعود , خالد , شعبہ , ہشام بن زید , انس

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ يَهُودِيًّا رَأَی عَلَی جَارِيَةٍ أَوْضَاحًا فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ فَقَالَ أَقَتَلَکِ فُلَانٌ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْکِيهَا أَنْ لَا فَقَالَ أَقَتَلَکِ فُلَانٌ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْکِيهَا أَنْ لَا قَالَ أَقْتَلَکِ فُلَانٌ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْکِيهَا أَنْ نَعَمْ فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ہشام بن زید، انس سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو دیکھا وہ کنگن پہنے ہوئے ہے اس نے اس لڑکی کو پتھر سے مار ڈالا (اور مرنے والی لڑکی کے کنگن اتار لئے) پھر لوگ اس لڑکی کو خدمت نبوی میں لے کر حاضر ہوئے اور اس میں معمولی سی جان باقی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھ کو فلاں نے مارا ہے؟ اس نے اشارہ سے عرض کیا نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے کا نام لیا پھر اس نے اشارہ سے کہا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (مذکورہ) یہودی شخص کا نام لیا تو اس نے اشارہ سے کہا جی ہاں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس یہودی شخص کو بلوایا اور حکم فرمایا تو وہ قتل کیا گیا دو پتھروں سے۔

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “There was Qisas among the Children of Israel, but Diyah was unknown among them. Then Allah, the Mighty and Sublime, revealed: Al-Qi (the law of equality in punishment) is prescribed for you in case of murder: the free for the free, the slave for the slave, and the female for the female..” up to His saying:
“But if the killer is forgiven by the brother (or the relatives) of the killed against blood money, then adhering to it with fairness and payment of the blood money to the heir should be made in fairness.” Forgiveness means accepting the Diyah in the case of deliberate killing. Adhering to it in fairness means asking him to pay the Diyah in a fair manner, and payment in fairness means giving the Diyah in a fair manner. This is an alleviation and a mercy from your Lord, means: This is easier than that which was prescribed for those who came before you, which was Qisas and not Diyah.” (Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں