زیر نظر حدیث مبارکہ میں راویوں کے اختلاف کا بیان
راوی: عمران بن بکار , بشر بن شعیب , وہ اپنے والد سے , زہری , عروة , عائشہ
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَکَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَعَارَتْ امْرَأَةٌ عَلَی أَلْسِنَةِ أُنَاسٍ يُعْرَفُونَ وَهِيَ لَا تُعْرَفُ حُلِيًّا فَبَاعَتْهُ وَأَخَذَتْ ثَمَنَهُ فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَعَی أَهْلُهَا إِلَی أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَکَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُکَلِّمُهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ إِلَيَّ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَالَ أُسَامَةُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّتَئِذٍ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا هَلَکَ النَّاسُ قَبْلَکُمْ أَنَّهُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ الشَّرِيفُ فِيهِمْ تَرَکُوهُ وَإِذَا سَرَقَ الضَّعِيفُ فِيهِمْ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ثُمَّ قَطَعَ تِلْکَ الْمَرْأَةَ
عمران بن بکار، بشر بن شعیب، وہ اپنے والد سے، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے بعض لوگوں کے ذریعہ کہ جن کو لوگ پہچانتے تھے لیکن اس عورت کو نہیں پہچانتے تھے زیور مانگا پھر اس عورت نے وہ زیور فروخت کر ڈالا اور اس کی قیمت لے لی (یعنی اپنے پاس رکھ لی) آخر کار وہ عورت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر کی گئی اس کے رشتہ داروں نے حضرت اسامہ بن زید سے سفارش کرانا چاہی حضرت اسامہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیا (یعنی اس عورت کی حرکت سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت غصہ آگیا) اور حضرت اسامہ گفتگو کر رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اسامہ کیا تم سفارش کرتے ہو؟ ایک حد کے سلسلہ میں حدود خداوند میں سے (یعنی تم حدود الٰہی میں دخل دیتے ہو)۔ یہ بات سن کر حضرت اسامہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے واسطے استغفار فرمائیں۔ پھر اسی شام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف فرمائی اس کی جیسی شان ہے پھر فرمایا حمد اور نعمت اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد معلوم ہو کہ تم سے پہلے لوگ تباہ ہو گئے اس وجہ سے کہ جس وقت ان لوگوں میں کوئی باعزت شخص چوری کا ارتکاب کرتا تو اس کو چھوڑ دیا کرتے اور جس وقت غریب شخص چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دی جاتی۔ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر فاطمہ (دختر محمد ) چوری کرتیں تو میں ان کا ہاتھ کٹوا دیتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔
It was narrated that ‘Aishah said: “A woman of Quraish, from Banu Makhzum, stole, and she was brought to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. They said: ‘Who will speak to him concerning her?’ They said: ‘Usamah bin Zaid.’ So he came to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, and spoke to him. But he rebuked him, and he said: ‘Among the Children of Israel, if a noble person stole, they would let him go. But if a low-class person stole, they would cut off his hand. By the One in Whose hand is the soul of Muhammad, if Fatimah bint Muhammad were to steal, I would cut off her hand.” (Sahih)