دھوئیں کے بیان میں
راوی: اسحاق بن ابراہیم , جریر , منصور ابی ضحی , عبداللہ مسروق
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ جُلُوسًا وَهُوَ مُضْطَجِعٌ بَيْنَنَا فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَاصًّا عِنْدَ أَبْوَابِ کِنْدَةَ يَقُصُّ وَيَزْعُمُ أَنَّ آيَةَ الدُّخَانِ تَجِيئُ فَتَأْخُذُ بِأَنْفَاسِ الْکُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ کَهَيْئَةِ الزُّکَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَجَلَسَ وَهُوَ غَضْبَانُ يَا أَيَّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ مَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِمَا يَعْلَمُ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّهُ أَعْلَمُ لِأَحَدِکُمْ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِينَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَی مِنْ النَّاسِ إِدْبَارًا فَقَالَ اللَّهُمَّ سَبْعٌ کَسَبْعِ يُوسُفَ قَالَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ کُلَّ شَيْئٍ حَتَّی أَکَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ مِنْ الْجُوعِ وَيَنْظُرُ إِلَی السَّمَائِ أَحَدُهُمْ فَيَرَی کَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّکَ جِئْتَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ هَلَکُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَی النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ إِلَی قَوْلِهِ إِنَّکُمْ عَائِدُونَ قَالَ أَفَيُکْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ مَضَتْ آيَةُ الدُّخَانِ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور ابی ضحی، عبداللہ حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا اے ابوعبدالرحمن کندہ کے دروازوں کے پاس ایک قصہ گو بیان کر رہا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے وہ دھواں آنے والا ہے پس وہ کفار کی سانسوں کو روک لے گا اور مومنین کے ساتھ صرف زکام کی کیفیت پیش آئے گی حضرت عبداللہ غصہ سے اٹھ بیٹھے پھر فرمایا اے لوگو اللہ سے ڈرو تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق ہی بیان کرے اور جو بات نہیں جانتا تو کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ تم میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جو جس بات کو نہ جانتا ہو اس کے بارے میں کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے پس بے شک اللہ رب العزت نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا آپ فرما دیں میں تم سے اس بات پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں سے بعضوں کی رو گردانی دیکھی تو فرمایا اللہ نے ان پر سات سالہ قحط نازل فرمایا جیسا کہ یوسف کے زمانہ میں سات سالہ قحط نازل ہوا تھا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پس ان پر ایک سالہ قحط آیا جس نے ہر چیز کو ملیا میٹ کر دیا یہاں تک کہ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور مردار کھائے گئے اور ان میں سے جو کوئی آسمان کی طرف نظر کرتا تھا تو دھوئیں کی سی کیفیت دیکھتا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوسفیان حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد بے شک آپ اللہ کی اطاعت کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دینے کے لئے تشریف لائے ہیں اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم و برادری تحقیق ہلاک ہو چکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ان کے لئے دعا مانگیں اللہ رب العزت نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتظار کریں اس دن کا جس دن کھلم کھلا دھواں ظاہر ہوگا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا یہ دردناک عذاب ہے بے شک تم لوٹنے والے ہو تک نازل فرمائیں تو انہوں نے کہا کیا آخرت کا عذاب دور کیا جاسکتا ہے تو اللہ عزوجل نے فرمایا جس دن ہم پکڑیں گے بڑی گرفت کے ساتھ بے شک ہم بدلہ لینے والے ہوں گے پس اس پکڑ سے مراد بدر کے دن کی پکڑ ہے اور دھوئیں اور لزام (یعنی بدر کیدن کی گرفت و قتل) اور روم کی علامات کی نشانیاں گزر چکی ہیں۔
Masruq reported: We were sitting in the company of Abdullah and he was lying on the bed that a person came and said: Abd Abd al-Rahmin, a story-teller at the gates of Kinda says that the verse (of the Qur'an) which deals with the "smoke" implies that which is about to come and it would hold the breath of the infidels and would inflict the believers with cold. Thereupon Abdullah got up and said in anger. O people, fear Allah and say only that which one knows amongst you and do not say which he does not know and he should simply say: Allah has the best knowledge for He has the best knowledge amongst all of you. It does not behoove him to say that which he does not know. Allah has the best knowledge of it. Verily Allah, the Exalted and Glorious, said to His Prophet (may peace be upon him) to state: "I do not ask from you any remuneration and I am not the one to put you in trouble," and when Allah's Messenger (may peace be upon him) saw people turning back (from religion) he said: O Allah, afflict them with seven famines as was done in the case of Yusuf, so they were afflicted with famine by which they were forced to eat everything until they were obliged to eat the hides and the dead bodies because of hunger, and every one of them looked towards the sky and he found a smoke. And Abu Sufyan came and he said: Muhammad, you have come to command us to obey Allah and cement the ties of blood-relation whereas your people are undone; supplicate Allah for them. Thereupon Allah, the Exalted and Glorious, said: "Wait for the day when there would be clear smoke from the sky which would envelop people and that would be grievous torment" up to the words: "you are going to return to (evil)." (if this verse implied the torment of the next life) could the chastisement of the next (life) be averted (as the Qur'an states): On the day when We seize (them) with the most violent seizing; surely We shall exact retribution" (xliv. 16)? The seizing (in the hadith) implies that of the Day of Badr. And so far as the sign of smoke, seizing, inevitability and signs of Rome are concerned, they have become things of the past now.