سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ لڑائی اور جنگ وجدل کا بیان ۔ حدیث 948

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

راوی: قعنبی , عبدالعزیز بن حازن , عمارہ ابن عمرو , عبداللہ بن عمر بن العاص

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ أَبِي حَازِمٍ حَدَّثَهُمْ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کَيْفَ بِکُمْ وَبِزَمَانٍ أَوْ يُوشِکُ أَنْ يَأْتِيَ زَمَانٌ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً تَبْقَی حُثَالَةٌ مِنْ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ وَاخْتَلَفُوا فَکَانُوا هَکَذَا وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَقَالُوا وَکَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ وَتَذَرُونَ مَا تُنْکِرُونَ وَتُقْبِلُونَ عَلَی أَمْرِ خَاصَّتِکُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَامَّتِکُمْ

قعنبی، عبدالعزیز بن حازن، عمارہ ابن عمرو، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا کہ فرمایا کہ قریب ہے ایسا زمانہ آجائے کہ لوگ اس میں چھانے جائیں گے(چھلنی میں چھاننا) اور ان میں جو گندے ہیں بھوسے وہ رہ جائیں گے (اچھے لوگ اٹھ جائیں گے) جن کے عہد ٹوٹ جائیں گے اور ان کی امانتوں میں خیانت ہوگی (بد عہدی اور خیانت کریں گے)۔ اور اختلاف کیا کریں گے اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ملادیا کہ اس طرح آپس میں اختلاف کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم کیسے رہیں اس وقت۔ فرمایا کہ جس کو تم اچھا سمجھتے ہو اسے پکڑے رہو اور جسے برا سمجھتے ہو اسے چھوڑ دو اپنے خاص خاص لوگوں کے معاملات کی طرف متوجہ ہو۔ اور اپنے عوام کو چھوڑ دو۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-'As:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: How will you do when that time will come? Or he said: A time will soon come when the people are sifted and only dregs of mankind survive and their covenants and guarantees have been impaired and they have disagreed among themselves and become thus, interwining his fingers. They asked: What do you order us to do, Apostle of Allah? He replied: Accept what you approve, abandon what you disapprove, attend to your own affairs and leave alone the affairs of the generality.

یہ حدیث شیئر کریں