امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان
راوی: ہارون بن عبداللہ , فضل بن دکین , یونس بن ابواسحاق , ہل بن خباب , ابوالعلاء , عکرمہ , عبداللہ بن عمر بن العاص
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَيْنٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ أَبِي الْعَلَائِ قَالَ حَدَّثَنِي عِکْرِمَةُ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ ذَکَرَ الْفِتْنَةَ فَقَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوا هَکَذَا وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ قَالَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ کَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِکَ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاکَ قَالَ الْزَمْ بَيْتَکَ وَامْلِکْ عَلَيْکَ لِسَانَکَ وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ
ہارون بن عبد اللہ، فضل بن دکین ، یونس بن ابواسحاق، ہل بن خباب، ابوالعلاء، عکرمہ، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العاص کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد تھے جب آپ نے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ اپنے عہدوں کو توڑ رہے ہیں اور اپنی امانتداری کو چھوڑ دیں اور وہ ایسے ہوجائیں (اختلاف کرتے ہوئے) آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ملادیا۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور میں نے عرض کیا کہ اللہ مجھے آپ پر فدا کردے میں اس وقت کیا کروں؟ فرمایا کہ اپنے گھر کو لازم پکڑو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھ۔ جو بات (شرعی اعتبار سے) اچھی ہو اسے لے لو اور جسے غلط سمجھو اسے چھوڑ دو۔ اور تم پر خاص اپنے نفس کی اصلاح ضروری ہے اور عوام کے معاملات کو چھوڑ دو۔
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-'As:
When we were around the Apostle of Allah (peace_be_upon_him), he mentioned the period of commotion (fitnah) saying: When you see the people that their covenants have been impaired, (the fulfilling of) the guarantees becomes rare, and they become thus (interwining his fingers). I then got up and said: What should I do at that time, may Allah make me ransom for you? He replied: Keep to your house, control your tongue, accept what you approve, abandon what you disapprove, attend to your own affairs, and leave alone the affairs of the generality.