سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ سنت کا بیان ۔ حدیث 1291

تقدیر کا بیان

راوی: عبیداللہ بن معاذ , ابوکہمس , ابن بریدہ , یحیی بن یعمر

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا کَهْمَسٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ تَکَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَائِ فِي الْقَدَرِ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلًا فِي الْمَسْجِدِ فَاکْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَکِلُ الْکَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَالْأَمْرَ أُنُفٌ فَقَالَ إِذَا لَقِيتَ أُولَئِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيئٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآئُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ثُمَّ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَی عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا نَعْرِفُهُ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُکْبَتَيْهِ إِلَی رُکْبَتَيْهِ وَوَضَعَ کَفَّيْهِ عَلَی فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ دِينَکُمْ

عبیداللہ بن معاذ، ابوکہمس، ابن بریدہ، حضرت یحیی بن یعمر فرماتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے تقدیر کے مسئلے میں گفتگو کی (انکار کیا) وہ معبد جہنی تھا بصرہ میں۔ پس میں اور حمید بن عبدالرحمن الحمیری حج یا عمرہ کے ارادہ سے چلے تو ہم نے (دل میں) کہا کہ اگر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی سے ملاقات کی تو ہم نے ان سے ان لوگوں کے بارے میں جو تقدیر کے بارے میں کرتے ہیں کہ پوچھیں گے پس اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کو ہمارے لئے آسان کردیا جو مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں جاگھیرا۔ میں نے سوچا کہ میرا ساتھی گفتگو کے لئے مجھے وکیل بنائے گا اس لئے کہ میں نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن ہماری طرف کچھ لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور علم کی گہرائیاں بھی کھنگالتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ تقدیر کچھ نہیں اور تمام امور اسی وقت ہو جاتے ہیں پہلے کوئی ارادہ یا مشیت الٰہی نہیں ہوتی (نعوذ باللہ) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو انہیں بتلا دینا کہ میں ان سے اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کی عبداللہ قسم کھاتا ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائیں گے یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئیں پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے بیان کیا ہم ایک مرتبہ رسول اللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص سفید براق کپڑے پہنے نمودار ہوا نہایت سیاہ بالوں والا، اس پر سفر کے کچھ آثار نہیں تھے کہ معلوم ہوتا کہ دور دراز کا سفر کر کے آرہا ہے اور نہ ہی ہم اسے جانتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رانوں پر رکھ دیا اور کہا کہ اے محمد مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (اسلام یہ ہے کہ) تو گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد کے رسول ہیں اور یہ کہ تو نماز قائم کرے، زکواة ادا کیا کرے، رمضان کے روزے رکھا کرے اور اگر تو طاقت رکھے تو بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا کہ کہ آپ نے سچ فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پس ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ خود سوال کرتا ہے اور خود ہی آپ کی تصدیق کر رہا ہے پھر اس نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیے تو آپ نے فرمایا کہ (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ پر ایمان لائے اور اس کے فرشتوں پر ایمان لائے اور اس کی (آسمانی) کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر، اور تقدیر پر ایمان لائے اچھی ہو یا بری، اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا پھر اس نے کہا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتلائیے آپ نے فرمایا کہ (احسان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اس طرح کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور(ایسا نہ کرسکے تو یہ تصور کر) کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے اس نے کہا کہ مجھے قیامت کے بارے میں بتلائیے کہ قیامت کب آئے گی آپ نے فرمایا کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ اس کے بارے میں علم نہیں رکھتا اس نے کہا کہ اچھا قیامت کی علامت کیا ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی علامتوں میں سے ہے کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی۔ اور تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں چلنے والے ننگے بھوکے لوگ، محتاج اور بکریاں چرانے والے لمبی لمبی عمارتیں بنانے لگیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ وہ پھر چلا گیا پس میں تین دن یا تین راتیں ٹھہرارہا ایک روایت میں مل گیا ہے کہ کچھ دیر ٹھہرا رہا پھر آپ نے فرمایا کہ اے عمر تم کیا جانتے ہو کہ سائل کون تھا؟۔ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے اور تمہارے پاس آئے تھے کہ تمہیں دین کی تعلیم دیں۔

یہ حدیث شیئر کریں