خوارج کے قتل کا بیان
راوی: محمد بن کثیر , سفیان , ابن ابونعیم , ابوسعید خدری
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَعَثَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا فَقَسَّمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةٍ بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِيِّ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي کِلَابٍ قَالَ فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ وَقَالَتْ يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا فَقَالَ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ قَالَ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ کَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقٌ قَالَ اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ فَقَالَ مَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ أَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَی أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي قَالَ فَسَأَلَ رَجُلٌ قَتْلَهُ أَحْسِبُهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ قَالَ فَمَنَعَهُ قَالَ فَلَمَّا وَلَّی قَالَ إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا أَوْ فِي عَقِبِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَکْتُهُمْ قَتَلْتُهُمْ قَتْلَ عَادٍ
محمد بن کثیر، سفیان، ابن ابونعم، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھوڑا سا سونا اپنی مٹی سمیت ہی بھیج دیا (جس طرح مٹی سے نکلا تھا بغیر صاف کئے بھیج دیا) تو آپ نے ان چار افراد میں تقسیم کر دیا۔ حضرت اقرع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حابس الحنظلی الجاشی، حضرت عینیہ بن بدرالفرازی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علقمہ بن علاثہ العامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بنی کلاب کے ایک فرد تھے کے درمیان تقسیم کردیا۔ روای کہتے ہیں کہ (یہ دیکھ کر) قریش اور انصار کے لوگ غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل نجد کے بہادر رؤسا کو تو دیتے ہو اور ہمیں چھوڑ دیتے ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک میں تو صرف ان کی تالیف قلوب کے لئے ایسا کرتا ہوں فرمایا کہ اسی اثناء میں ایک دھنسی ہوئی آنکھوں والا، اٹھے ہوئے جبڑوں والا، ابھری ہوئی پیشانی والا، گھنی ڈاڑھی اور گنجے سر والا شخص آیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سے ڈر۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں ہی اللہ کی نافرمانی کرنے لگوں تو اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اللہ نے مجھے امانت دار بنایا زمین والوں پر اور تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرا خیال ہے کہ غالباً حضرت خالد بن ولید نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے قتل کی اجازت مانگی۔ آپ نے منع فرمایا جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کو پڑھتے ہوں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے وہ اہل سلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں انہیں پالوں تو میں انہیں اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کو قتل کیا گیا تھا۔