اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں، اور ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لو، اور اس امر کا بیان کہ مشورہ عزم سے پہلے ہے اور اصل حال ظاہر ہونے سے پہلے ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزم کرلیں تو کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کے خلاف کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دن اپنے صحابہ سے مدینہ میں ٹھہر کر جنگ کرنے اور نکل کر جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا، لوگوں نے نکل کر ہی جنگ کرنے کو مناسب خیال کیا، جب آپ نے اپنی زرہ پہن لی اور ارادہ کرلیا تو لوگوں نے ککہا کہ مدینہ میں ٹھہرنا ہی مناسب ہے، لیکن آپ نے عزم کرلینے کے بعد ان کی طرف توجہ نہ کی اور فرمایا کہ کسی نبی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن کر اتار دے جب تک کہ اللہ تعالی حکم نہ دیں اور آپ نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما سے عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے اجنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان کی باتیں آپ نے سنیں یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا تو آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے اختلاف کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ وہی فیصلہ کیا جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ائمہ (خلفاء) ایماندار اہل علم سے مباح امور میں مشورہ لیتے تھے تاکہ ان میں جو آسان ہو اسے اختیار کریں اور اگر کتاب یا سنت اس کو واضح کردیتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ کیا جنہوں نے زکوۃ روک دی تھی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کیونکر جہاد کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، جب وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیں تو ان لوگوں نے ہم سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیا، سوائے حق اسلام کے، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں اس سےجہاد کروں گا جس نے اس چیز کے درمیان تفریق کی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے ، پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہم خیال ہوگئے، ابوبکر مشورہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس لئے کہ ان کے پاس ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیا اور دین اور اس کے احکام کو بدلنا چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا تو اس کو قتل کردو اور قراء خواہ وہ بوڑھے تھے یا جوان، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشیر تھے اور اللہ بزرگ و برتر کی کتاب (کے حکم) کے نزدیک وہ لوگ رک جانے والے تھے۔
راوی: محمد بن حرب , یحیی بن ابی زکریا , غسانی , ہشام , عروہ , عائشہ
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي زَکَرِيَّائَ الْغَسَّانِيُّ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ وَقَالَ مَا تُشِيرُونَ عَلَيَّ فِي قَوْمٍ يَسُبُّونَ أَهْلِي مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَعَنْ عُرْوَةَ قَالَ لَمَّا أُخْبِرَتْ عَائِشَةُ بِالْأَمْرِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَنْطَلِقَ إِلَی أَهْلِي فَأَذِنَ لَهَا وَأَرْسَلَ مَعَهَا الْغُلَامَ وَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ سُبْحَانَکَ مَا يَکُونُ لَنَا أَنْ نَتَکَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَکَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
محمد بن حرب، یحیی بن ابی زکریا، غسانی، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا کہ تم مجھ کو ان لوگوں کے متعلق کیا مشورہ دیتے ہو جو میری بیوی کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی، اور عروہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس معاملہ (بہتان) کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں ، آپ نے ان کو اجازت دیدی، اور ان کے ساتھ ایک غلام بھیج دیا، انصار میں سے ایک شخص نے کہا کہ (سُبْحَانَکَ مَا يَکُونُ لَنَا أَنْ نَتَکَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَکَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ)
Narrated Aisha:
Allah's Apostle addressed the people, and after praising and glorifying Allah, he said, "What do you suggest me regarding those people who are abusing my wife? I have never known anything bad about her." The sub-narrator, 'Urwa, said: When 'Aisha was told of the slander, she said, "O Allah's Apostle! Will you allow me to go to my parents' home?" He allowed her and sent a slave along with her. An Ansari man said, "Subhanaka! It is not right for us to speak about this. Subhanaka! This is a great lie!"