صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ زہد و تقوی کا بیان ۔ حدیث 3010

اصحاب الاخددو (یعنی خندق والے) اور جادوگر اور ایک اور غلام کے واقعہ کے بیان میں

راوی: ہداب بن خالد , حماد بن سلمہ , ثابت بن عبدالرحمن بن ابی لیلی , صہیب , صہیب

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ مَلِكٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ فَلَمَّا كَبِرَ قَالَ لِلْمَلِكِ إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ فَابْعَثْ إِلَيَّ غُلَامًا أُعَلِّمْهُ السِّحْرَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ غُلَامًا يُعَلِّمُهُ فَكَانَ فِي طَرِيقِهِ إِذَا سَلَكَ رَاهِبٌ فَقَعَدَ إِلَيْهِ وَسَمِعَ كَلَامَهُ فَأَعْجَبَهُ فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ مَرَّ بِالرَّاهِبِ وَقَعَدَ إِلَيْهِ فَإِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ فَقَالَ إِذَا خَشِيتَ السَّاحِرَ فَقُلْ حَبَسَنِي أَهْلِي وَإِذَا خَشِيتَ أَهْلَكَ فَقُلْ حَبَسَنِي السَّاحِرُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى عَلَى دَابَّةٍ عَظِيمَةٍ قَدْ حَبَسَتْ النَّاسَ فَقَالَ الْيَوْمَ أَعْلَمُ آلسَّاحِرُ أَفْضَلُ أَمْ الرَّاهِبُ أَفْضَلُ فَأَخَذَ حَجَرًا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ أَمْرِ السَّاحِرِ فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى يَمْضِيَ النَّاسُ فَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا وَمَضَى النَّاسُ فَأَتَى الرَّاهِبَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ أَيْ بُنَيَّ أَنْتَ الْيَوْمَ أَفْضَلُ مِنِّي قَدْ بَلَغَ مِنْ أَمْرِكَ مَا أَرَى وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى فَإِنْ ابْتُلِيتَ فَلَا تَدُلَّ عَلَيَّ وَكَانَ الْغُلَامُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُدَاوِي النَّاسَ مِنْ سَائِرِ الْأَدْوَاءِ فَسَمِعَ جَلِيسٌ لِلْمَلِكِ كَانَ قَدْ عَمِيَ فَأَتَاهُ بِهَدَايَا كَثِيرَةٍ فَقَالَ مَا هَاهُنَا لَكَ أَجْمَعُ إِنْ أَنْتَ شَفَيْتَنِي فَقَالَ إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِاللَّهِ دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ فَآمَنَ بِاللَّهِ فَشَفَاهُ اللَّهُ فَأَتَى الْمَلِكَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ كَمَا كَانَ يَجْلِسُ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ قَالَ رَبِّي قَالَ وَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي قَالَ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الْغُلَامِ فَجِيءَ بِالْغُلَامِ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ أَيْ بُنَيَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ مَا تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ فَقَالَ إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ فَجِيءَ بِالرَّاهِبِ فَقِيلَ لَهُ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَدَعَا بِالْمِئْشَارِ فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَشَقَّهُ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ ثُمَّ جِيءَ بِجَلِيسِ الْمَلِكِ فَقِيلَ لَهُ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَشَقَّهُ بِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ ثُمَّ جِيءَ بِالْغُلَامِ فَقِيلَ لَهُ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اذْهَبُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَاصْعَدُوا بِهِ الْجَبَلَ فَإِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَاطْرَحُوهُ فَذَهَبُوا بِهِ فَصَعِدُوا بِهِ الْجَبَلَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ فَرَجَفَ بِهِمْ الْجَبَلُ فَسَقَطُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ قَالَ كَفَانِيهِمُ اللَّهُ فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اذْهَبُوا بِهِ فَاحْمِلُوهُ فِي قُرْقُورٍ فَتَوَسَّطُوا بِهِ الْبَحْرَ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَاقْذِفُوهُ فَذَهَبُوا بِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ فَانْكَفَأَتْ بِهِمْ السَّفِينَةُ فَغَرِقُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ قَالَ كَفَانِيهِمُ اللَّهُ فَقَالَ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِي حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَجْمَعُ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ وَتَصْلُبُنِي عَلَى جِذْعٍ ثُمَّ خُذْ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِي ثُمَّ ضَعْ السَّهْمَ فِي كَبِدِ الْقَوْسِ ثُمَّ قُلْ بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ثُمَّ ارْمِنِي فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِي فَجَمَعَ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ وَصَلَبَهُ عَلَى جِذْعٍ ثُمَّ أَخَذَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ ثُمَّ وَضَعَ السَّهْمَ فِي كَبْدِ الْقَوْسِ ثُمَّ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ثُمَّ رَمَاهُ فَوَقَعَ السَّهْمُ فِي صُدْغِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي صُدْغِهِ فِي مَوْضِعِ السَّهْمِ فَمَاتَ فَقَالَ النَّاسُ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ فَأُتِيَ الْمَلِكُ فَقِيلَ لَهُ أَرَأَيْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ قَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ حَذَرُكَ قَدْ آمَنَ النَّاسُ فَأَمَرَ بِالْأُخْدُودِ فِي أَفْوَاهِ السِّكَكِ فَخُدَّتْ وَأَضْرَمَ النِّيرَانَ وَقَالَ مَنْ لَمْ يَرْجِعْ عَنْ دِينِهِ فَأَحْمُوهُ فِيهَا أَوْ قِيلَ لَهُ اقْتَحِمْ فَفَعَلُوا حَتَّى جَاءَتْ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا فَتَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِيهَا فَقَالَ لَهَا الْغُلَامُ يَا أُمَّهْ اصْبِرِي فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ

ہداب بن خالد، حماد بن سلمہ، ثابت بن عبدالرحمن بن ابی لیلی، صہیب، حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں تو بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لئے جادوگر کی طرف بھیج دیا جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا تو اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔ اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا اے اللہ اگر تجھے جادوگر کے معاملہ سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے تاکہ لوگوں کا آنا جانا ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کر دیا اور لوگ گزرنے لگے پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا اے میرے بیٹے آج تو مجھ سے افضل ہے کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کر دیا جائے گا پھر اگر تو (کسی مصیبت میں) مبتلا کر دیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا اور وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا بلکہ لوگوں کا ساری بیماری سے علاج بھی کر دیتا تھا بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہو گیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں اس لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفاء دے دے پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء عطا فرما دی پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی اس نے کہا میرے رب نے اس نے کہا کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے اس نے کہا میرا اور تیرا رب اللہ ہے پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں کہا پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ اے بیٹے! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دیا یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتا دیا راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، راہب نے انکار کر دیا پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دئیے پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو مجھے ان سے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے اس پہاڑ پر فورا ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا لڑکے نے کہا اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہو گئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے پھر اس لڑکے نے باشاہ سے کہا تو مجھے قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرو جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں بادشاہ نے کہا وہ کیا؟ اس لڑکے نے کہا سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھو اور پھر کہو اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر کہا اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا تو سب لوگوں نے کہا ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے تو پھر بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں آئے گا تو میں اس آدمی کو اس خندق میں ڈلوا دوں گا تو انہیں خندق میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس عورت کے بچے نے کہا اے امی جان صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے ۔

Suhaib reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) thus said: There lived a king before you and he had a (court) magician. As he (the magician) grew old, he said to the king: I have grown old, send some young boy to me so that I should teach him magic. He (the king) sent to him a young man so that he should train him (in magic). And on his way to the magician he (the young man) found a monk sitting there. He (the young man) listened to his (the monk's) talk and was impressed by it. It became his habit that on his way to the magician he met the monk and set there and he came to the magician (late). He (the magician) beat him because of delay. He made a complaint of that to the monk and he said to him: When you feel afraid of the magician, say: Members of my family had detained me. And when you feel afraid of your family you should say: The magician had detained me. It so happened that there came a huge beast (of prey) and it blocked the way of the people, and he (the young boy) said: I will come to know today whether the magician is superior or the monk is superior. He picked up a stone and said: O Allah, if the affair of the monk is dearer to Thee than the affair of the magician, cause death to this animal so that the people should be able to move about freely. He threw that stone towards it and killed it and the people began to move about (on the path freely). He (the young man) then came to that monk and informed him and the monk said: Sonny, today you are superior to me. Your affair has come to a stage where I find that you would be soon put to a trial, and in case you are put to a trial don't give my clue. That young man began to treat the blind and those suffering from leprosy and he in fact began to cure people from (all kinds) of illness. When a companion of the king who had gone blind heard about him, he came to him with numerous gifts and said: If you cure me all these things collected together here would be yours. He said: I myself do not cure anyone. It is Allah Who cures and if you affirm faith in Allah, I shall also supplicate Allah to cure you.
He affirmed his faith in Allah and Allah cured him and he came to the king and sat by his side as he used to sit before. The king said to him: Who restored your eyesight? He said: My Lord. Thereupon he said: It means that your Lord is One besides me. He said: My Lord and your Lord is Allah, so he (the king) took hold of him and tormented him till he gave a clue of that boy. The young man was thus summoned and the king said to him: O boy, it has been conveyed to me that you have become so much proficient in your magic that you cure the blind and those suffering from leprosy and you do such and such things. Thereupon he said: I do not cure anyone; it is Allah Who cures, and he (the king) took hold of him and began to torment him. So he gave a clue of the monk. The monk was thus summoned and it was said to him: You should turn back from your religion. He, however, refused to do so. He (ordered) for a saw to be brought (and when it was done) he (the king) placed it in the middle of his head and tore it into parts till a part fell down. Then the courtier of the king was brought and it was said to him: Turn back from your religion. And he refused to do so, and the saw was placed in the midst of his head and it was torn till a part fell down. Then that young boy was brought and it was said to him: Turn back from your religion. He refused to do so and he was handed over to a group of his courtiers. And he said to them: Take him to such and such mountain; make him climb up that mountain and when you reach its top (ask him to renounce his faith) but if he refuses to do so, then throw him (down the mountain). So they took him and made him climb up the mountain and he said: O Allah, save me from them (in any way) Thou likest, and the mountain began to quake and they all fell down and that person came walking to the king. The king said to him: What has happened to your companions? He said: Allah has saved me from them. He again handed him to some of his courtiers and said: Take him and carry him in a small boat and when you reach the middle of the ocean (ask him to renounce) his religion, but if he does not renounce his religion throw him (into the water).
So they took him and he said: O Allah, save me from them and what they want to do. It was quite soon that the boat turned over and they were drowned and he came walking to the king, and the king said to him: What has happened to your companions? He said: Allah has saved me from them, and he said to the king: You cannot kill me until you do what I ask you to do. And he said: What is that? He said: You should gather people in a plain and hang me by the trunk (of a tree). Then take hold of an arrow from the quiver and say: In the name of Allah, the Lord of the worlds; then shoot an arrow and if you do that then you would be able to kill me. So he (the king) called the people in an open plain and tied him (the boy) to the trunk of a tree, then he took hold of an arrow from his quiver and then placed the arrow in the bow and then said: In the name of Allah, the Lord of the young boy; he then shot an arrow and it bit his temple. He (the boy) placed his hands upon the temple where the arrow had hit him and he died and the people said: We affirm our faith in the Lord of this young man, we affirm our faith in the Lord of this young man, we affirm our faith in the Lord of this young man. The courtiers came to the king and it was said to him: Do you see that Allah has actually done what you aimed at averting. They (the people) have affirmed their faith in the Lord. He (the king) commanded ditches to be dug at important points in the path. When these ditches were dug, and the fire was lit in them it was said (to the people): He who would not turn back from his (boy's) religion would be thrown in the fire or it would be said to them to jump in that. (The people courted death but did not renounce religion) till a woman came with her child and she felt hesitant in jumping into the fire and the child said to her: 0 mother, endure (this ordeal) for it is the Truth.

یہ حدیث شیئر کریں