اللہ تعالی کا قول بلکہ وہ بزرگ قرآن ہے جو لوح محفوظ میں ہے اور آیت والطور وکتاب مسطور، قتادہ نھے کہا کہ مسطور سے مراد مکتوب ہے یسطرون کے معنی لکھتے ہیں ام الکتاب سے مراد اصل اور مجموعی کتاب ہے یا بلفظ یعنی جو کچھ بھی بات کرے گا وہ لکھ لیا جائے گا اور ابن عباس نے کہا کہ خیر اور شر لکھ لیا جاتا ہے ، یحرفون کے معنی دور کرتے ہیں اور نہیں ہے کوئی شخص جو اللہ کی کتاب کے لفظ کو زائل کردے لیکن وہ لوگ تحریف کرتے ہیں، اور ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو اس کے منشاء کے خلاف ہیں، دراستھم یعنی ان کی تلاوت کرنا واعیۃ بمعنی محفوظ رکھنے والی، وتعیھا اس کو محفوظ رکھتی ہے اور میری طرف قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ تم کو (اہل مکہ) کو ڈراؤں اور جس کو یہ قرآن پہنچے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ڈرانے والے ہیں۔
راوی: خلیفہ بن خیاط، معتمر، قتادہ ، ابورافع، ابوہریر
و قَالَ لِي خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ سَمِعْتُ أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ غَلَبَتْ أَوْ قَالَ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ
اور مجھ سے خلیفہ خیاط نے بواسطہ معمر، ابو قتادہ، ابو رافع، ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ نے فرمایا کہ جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس ایک تحریر لکھ دی کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آگئی یا فرمایا سبقت لے گئی اور یہ اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے۔