وصی کے لئے کیا جائز ہے اور کیا جائز نہیں ہے۔
راوی:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعِنْدَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو قِلَابَةَ إِذْ دَخَلَ غُلَامٌ فَقَالَ أَرْضُنَا بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا بَاعَكُمْ الْوَصِيُّ وَنَحْنُ أَطْفَالٌ فَالْتَفَتَ إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ فَقَالَ مَا تَقُولُ فَأَضْجَعَ فِي الْقَوْلِ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ فَقَالَ مَا تَقُولُ قَالَ رُدَّ عَلَى الْغُلَامِ أَرْضَهُ قَالَ إِذًا يَهْلِكُ مَالُنَا قَالَ أَنْتَ أَهْلَكْتَهُ
عکرمہ جو کہ دمشق کے ایک بزرگ ہیں بیان کرتے ہیں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس موجود تھا اس وقت ان کے پاس سلیمان بن حبیب اور ابوقلابہ بھی موجود تھے ایک لڑکا وہاں آیا اور بولا ہماری زمین فلاں جگہ پر ہے جسے وصی نے آپ کو فروخت کردیا تھا ہم اس وقت بچے تھے راوی بیان کرتے ہیں سلیمان بن حبیب نے میری طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا آپ کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب دیتے ہوئے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے ابوقلابہ کی طرف توجہ کی اور ان سے دریافت کیا آپ کیا کہتے ہیں انہوں نے فرمایا اس غلام کو اس کی زمین واپس کردو تو وہ بولے اس صورت میں ہمارا مال ہلاک ہوجائے گا تو ابوقلابہ بولے آپ نے خود اسے ہلاک کیا ہے۔