تہائی مال کی وصیت کرنا۔
راوی:
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ اشْتَكَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حَتَّى أُدْنِفْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أُرَانِي إِلَّا لِمَا بِي وَأَنَا ذُو مَالٍ كَثِيرٍ وَإِنَّمَا يَرِثُنِي ابْنَةٌ لِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَبِنِصْفِهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ إِنْ تَتْرُكْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ فُقَرَاءَ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ بِأَيْدِيهِمْ وَإِنَّكَ لَا تُنْفِقُ نَفَقَةً إِلَّا آجَرَكَ اللَّهُ فِيهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ
عامر بن سعید اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں حجتہ الوداع کے موقع پر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور شدید بیمار ہوگیا جب بیماری زیادہ ہوگئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول مجھے لگ رہا ہے کہ میرا آخری وقت قریب آگیا ہے میں بہت سے مال کا مالک ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے میں اپنا پورا مال صدقہ کردوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے عرض کی نصف مال؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا نہیں میں نے دریافت کیا پھر ایک تہائی مال؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ویسے ایک تہائی بھی زیادہ ہے تم اپنے ورثاء کو خوشحال چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں غریب چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ اس کے بارے میں تمہیں اجر عطا کرے گا یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو اس کا بھی تم کو اجر ملے گا۔