نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
راوی:
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ الْمِصْرِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ أَبِي أَيُّوبَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيِّ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَهْتَمِ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مَعَ الْعَامَّةِ فَلَمْ يُفْجَأْ عُمَرُ إِلَّا وَهُوَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَتَكَلَّمُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ غَنِيًّا عَنْ طَاعَتِهِمْ آمِنًا لِمَعْصِيَتِهِمْ وَالنَّاسُ يَوْمَئِذٍ فِي الْمَنَازِلِ وَالرَّأْيِ مُخْتَلِفُونَ فَالْعَرَبُ بِشَرِّ تِلْكَ الْمَنَازِلِ أَهْلُ الْحَجَرِ وَأَهْلُ الْوَبَرِ وَأَهْلُ الدَّبَرِ يُحْتَازُ دُونَهُمْ طَيِّبَاتُ الدُّنْيَا وَرَخَاءُ عَيْشِهَا لَا يَسْأَلُونَ اللَّهَ جَمَاعَةً وَلَا يَتْلُونَ لَهُ كِتَابًا مَيِّتُهُمْ فِي النَّارِ وَحَيُّهُمْ أَعْمَى نَجِسٌ مَعَ مَا لَا يُحْصَى مِنْ الْمَرْغُوبِ عَنْهُ وَالْمَزْهُودِ فِيهِ فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَنْشُرَ عَلَيْهِمْ رَحْمَتَهُ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُمْ ذَلِكَ أَنْ جَرَحُوهُ فِي جِسْمِهِ وَلَقَّبُوهُ فِي اسْمِهِ وَمَعَهُ كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ نَاطِقٌ لَا يُقَدَّمُ إِلَّا بِأَمْرِهِ وَلَا يُرْحَلُ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَلَمَّا أُمِرَ بِالْعَزْمَةِ وَحُمِلَ عَلَى الْجِهَادِ انْبَسَطَ لِأَمْرِ اللَّهِ لَوْثُهُ فَأَفْلَجَ اللَّهُ حُجَّتَهُ وَأَجَازَ كَلِمَتَهُ وَأَظْهَرَ دَعْوَتَهُ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ فَسَلَكَ سُنَّتَهُ وَأَخَذَ سَبِيلَهُ وَارْتَدَّتْ الْعَرَبُ أَوْ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُمْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الَّذِي كَانَ قَابِلًا انْتَزَعَ السُّيُوفَ مِنْ أَغْمَادِهَا وَأَوْقَدَ النِّيرَانَ فِي شُعُلِهَا ثُمَّ رَكِبَ بِأَهْلِ الْحَقِّ أَهْلَ الْبَاطِلِ فَلَمْ يَبْرَحْ يُقَطِّعُ أَوْصَالَهُمْ وَيَسْقِي الْأَرْضَ دِمَاءَهُمْ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ فِي الَّذِي خَرَجُوا مِنْهُ وَقَرَّرَهُمْ بِالَّذِي نَفَرُوا عَنْهُ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بَكْرًا يَرْتَوِي عَلَيْهِ وَحَبَشِيَّةً أَرْضَعَتْ وَلَدًا لَهُ فَرَأَى ذَلِكَ عِنْدَ مَوْتِهِ غُصَّةً فِي حَلْقِهِ فَأَدَّى ذَلِكَ إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبِهِ ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَمَصَّرَ الْأَمْصَارَ وَخَلَطَ الشِّدَّةَ بِاللِّينِ وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ وَشَمَّرَ عَنْ سَاقَيْهِ وَأَعَدَّ لِلْأُمُورِ أَقْرَانَهَا وَلِلْحَرْبِ آلَتَهَا فَلَمَّا أَصَابَهُ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَمَرَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَسْأَلُ النَّاسَ هَلْ يُثْبِتُونَ قَاتِلَهُ فَلَمَّا قِيلَ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ اسْتَهَلَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ أَصَابَهُ ذُو حَقٍّ فِي الْفَيْءِ فَيَحْتَجَّ عَلَيْهِ بِأَنَّهُ إِنَّمَا اسْتَحَلَّ دَمَهُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ حَقِّهِ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بِضْعَةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا فَكَسَرَ لَهَا رِبَاعَهُ وَكَرِهَ بِهَا كَفَالَةَ أَوْلَادِهِ فَأَدَّاهَا إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبَيْهِ ثُمَّ إِنَّكَ يَا عُمَرُ بُنَيُّ الدُّنْيَا وَلَّدَتْكَ مُلُوكُهَا وَأَلْقَمَتْكَ ثَدْيَيْهَا وَنَبَتَّ فِيهَا تَلْتَمِسُهَا مَظَانَّهَا فَلَمَّا وُلِّيتَهَا أَلْقَيْتَهَا حَيْثُ أَلْقَاهَا اللَّهُ هَجَرْتَهَا وَجَفَوْتَهَا وَقَذِرْتَهَا إِلَّا مَا تَزَوَّدْتَ مِنْهَا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَلَا بِكَ حَوْبَتَنَا وَكَشَفَ بِكَ كُرْبَتَنَا فَامْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ فَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ عَلَى الْحَقِّ شَيْءٌ وَلَا يَذِلُّ عَلَى الْبَاطِلِ شَيْءٌ أَقُولُ قَوْلِي وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ قَالَ أَبُو أَيُّوبَ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ فِي الشَّيْءِ قَالَ لِيَ ابْنُ الْأَهْتَمِ امْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ
خالد بن معدان بیان کرتے ہیں عبداللہ بن اہتم عمر بن عبدالعزیز کے پاس آئے ان کے ساتھ چند لوگ بھی تھے جیسے ہی وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس پہنچے ساتھ ہی گفتگو چھیڑ لی انہوں نے اللہ کی حمد وثناء بیان کرتے کے بعد یہ کہا امابعد! بے شک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے حالانکہ وہ ان کی اطاعت سے بے نیاز ہے اور ان کے گناہوں سے محفوظ ہے۔ لوگ اس وقت حیثیت اور عقل مندی میں ایک دوسرے سے مختلف تھے عرب اس وقت سب سے زیادہ برے حال میں تھے جھونپڑوں اور ڈیروں میں رہتے تھے اور شہد کی مکھیاں پالتے تھے دنیا کی تمام تر پاکیزہ اور عیش و عشرت کا سامان ان سے دور تھا۔ وہ اللہ سے اجتماعی طور پر کچھ نہیں مانگتے تھے۔ اور نہ ہی اس کی کوئی کتاب پڑھتے تھے ان کے مرحومین جہنم میں گئے اور ان کے زندہ لوگ اندھے تھے اور ناپاک تھے اس کے علاوہ ان میں بہت سی خامیاں اور بری باتیں پائی جاتی تھیں جب اللہ نے ان پر اپنی رحمت پھیلانے کا ارادہ کیا تو ان کی طرف انہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے نزدیک تمہارامشقت میں مبتلا ہونا بہت دشوار تھا وہ تمہاری بھلائی کے لئے بہت زیادہ حریص تھے اللہ اس پر درود نازل کرے اور سلام نازل کرے اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں لیکن اس کے باوجود عرب اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو زخمی کیا آپ کے نام کے ساتھ منفی لقب کا اضافہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اللہ کی کتاب موجود تھی جو حکم دینے والی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے تحت ہر کام کرتے تھے اور اسی کیا اجازت سے آپ نے ہجرت کی جب آپ کو فرائض کا حکم دیا گیا اور جہاد کی ترغیب دی گئی تو اللہ کے حکم کی بدولت آپ کی حکومت پھیل گئی۔ اللہ نے آپ کی حجت ظاہر کی آپ کے کلمے کو غالب کیا اور آپ کی دعوت کو عام کیا آپ نے پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے علیحدگی اختیار کی۔
آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے آپ کی سنت پر عمل کیا آپ کے راستے کو اپنایا بعض عرب مرتد ہوگئے تھے یا ان میں سے جس نے بھی یہ حرکت کی اللہ کے رسول کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور صرف اسی کو قبول کیا جوقبول کرنے کے لائق تھا تلواریں میانوں سے باہر آگئیں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل حق کی مدد سے اہل باطل کو نقصان پہنچایا اس وقت تک ان کے اعضاء کاٹتے رہے اور زمین کو ان کے خون سے سیراب کرتے رہے جب تک انہیں واپس وہیں نہیں پہنچادیا گیا جہاں سے وہ نکلے تھے اور انہیں وہیں قائم کیا جہاں سے وہ بارہ آئے تھے تو اللہ کے مال میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک اونٹ ملا جس پر پانی لاد کر لایا جاتا تھا ایک حبشی کنیز ملی جوان کے بچے کو دودھ پلاتی تھی موت کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اپنے لئے الجھن کا باعث سمجھا اس لئے انہوں نے یہ چیزیں اپنے بعد والے خلیفہ کے سپرد کردیں اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے بالکل اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے۔
اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے انہوں نے شہر بسائے نرمی کے ہمراہ شدت کو ملا دیا اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھالیں اور اپنی پنڈلیوں سے دامن سمیٹ لیا اور تمام امور کے لئے مناسب لوگوں کا انتظام کیا جنگ کے لئے آلات کا انتظام گیا جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے ان پر حملہ کیا تو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی وہ لوگوں سے دریافت کریں کیا لوگوں نے ان کے قتل کرنے والے کی تحقیق کی ہے توجب انہیں بتایا گیا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام ہے (جوغیر مسلم ہے) تو انہوں نے بلند آواز سے اپنے پروردگار کی تعریف کی کہ مال غنیمت میں سے کسی حق دار نے ان پر حملہ نہیں کیا جو ان کے خلاف کوئی حجت پیش کرتا کہ حضرت عمر نے اس کا جو حق دبایا تھا اس کی خاطر انہوں نے ان کا خون بہایا تھا۔ حضرت عمر نے اللہ کے مال میں سے اسی ہزار سے کچھ زیادہ درہم وصول کئے تھے۔ اس کی خاطر انہوں نے اپنے مکان کو فروخت کردیا اور یہ ناپسند کیا کہ ان کی اولاد اس رقم کو دینے کی پابند ہو۔ انہوں نے یہ رقم اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کی اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں اپنے دونوں پیش رو حضرات کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
عبداللہ بن اہتم نے کہا اے عمربن عبدالعزیز پھر اس کے بعد تم ہو دنیا کے بادشاہوں کی اولاد نے تمہیں جنم دیا ہے اسی نے تمہیں دودھ پلایا انہی لوگوں میں تمہاری پرورش ہوئی انہیں جگہوں پر تم انہیں تلاش کرتے رہے لیکن جب تم حکومت کے مالک بنے تو تم نے اسے وہیں رکھا جہاں اللہ نے اسے رکھا تھا تم نے اس سے لاتعلقی اختیار کی اور اس سے جفا کی اور اسے بڑا سمجھا ماسوائے اس چیز کے جس کی تمہارے لئے ضرورت ہو اور ہرطرح کی حمد اللہ کے لئے ہے جس نے تمہاری وجہ سے ہماری حاجات کو پورا کیا اور تمہاری وجہ سے ہماری پریشانی کو ختم کیا تم چلتے رہو اور ادھر ادھر توجہ نہ دو کیونکہ حق سے زیادہ عزت دار کوئی چیز نہیں ہے اور باطل سے زیادہ ذلیل کوئی اور چیز نہیں ہے میں نے یہ بات ختم کی اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ابوایوب بیان کرتے ہیں عمربن عبدالعزیز جب بھی کسی چیز کے بارے میں کچھ کہتے تھے یہ بات فرماتے مجھے ابن اہتم نے بتائی ہے اور یہی کہتے کہ تھے کہ چلتے رہو ادھر ادھر توجہ نہ دو۔