اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عزت افزائی کرنا (یعنی آپ کے ذریعے یہ معجزہ ظاہر کرنا کہ آپ کی انگلیوں میں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے۔
راوی:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى جِذْعٍ مَنْصُوبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ فَجَاءَهُ رُومِيٌّ فَقَالَ أَلَا أَصْنَعُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَكَأَنَّكَ قَائِمٌ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ وَيَقْعُدُ عَلَى الثَّالِثَةِ فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ خَارَ الْجِذْعُ كَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّى ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ يَخُورُ فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكَنَ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ لَمَا زَالَ هَكَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہوا کرتے تھے آپ اپنی پشت مسجد میں موجود ایک تنے سے ٹکا لیتے تھے اور خود لوگوں کو خطبہ دیتے تھے ایک رومی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ کے لئے ایسی چیز نہ بنادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوجایا کریں اور یوں ہی ہوگا جیسے آپ کھڑے ہوں اس شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منبر بنایا جس کی دوسیڑھیاں تھیں اور تیسری سیڑھی پر آپ تشریف فرما ہوجایا کرتے تھے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر تشریف فرما ہوئے تولکڑی کے اس تنے نے بیل کی مانند آواز نکالنا شروع کردی۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے تھی۔ یہاں تک کہ پوری مسجد میں اس کی آواز گونج گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور اس کے پاس آئے۔ آپ نے اسے لپٹا لیا وہ رو رہا تھا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لپٹا لیا تو اسے سکون آیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر میں اسے نہ لپٹاتا تو یہ قیامت تک اسی حالت میں رہتا۔ راوی کہتے ہیں اللہ کے رسول کی جدائی کی وجہ سے ایسا ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت اس کودفن کردیا گیا ۔