سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ زکوة کا بیان ۔ حدیث 1596

کون سا صدقہ افضل ہے۔

راوی:

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا نَخْلًا وَكَانَتْ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءُ وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا طَيِّبٌ فَقَالَ أَنَسٌ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ قَالَ إِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءُ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ أَوْ رَائِحٌ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهُ فِي الْأَقْرَبِينَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَسَّمَهُ أَبُو طَلْحَةَ فِي قَرَابَةِ بَنِي عَمِّهِ

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کھجوروں کے باغ کی ملکیت کے حوالے سے حضرت ابوطلحہ مدینہ منورہ میں سب سے امیر انصاری تھے انہیں اپنے باغات میں سب سے زیادہ بیرحاء نامی باغ محبوب تھا جو مسجد کے مقابل میں تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جایا کرتے تھے وہاں پاکیزہ پانی پیتے تھے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی " تم لوگ اس وقت تک نیکی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ چیزیں خرچ نہ کرو جو تمہیں پسند ہیں اور جو چیز تم خرچ کروگے اس سے اللہ واقف ہے" حضرت ابوطلحہ بولے میرا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء ہے، یہ صدقہ ہے اور میں اللہ کی بارگاہ میں اس کے ثواب کے امیدوار ہوں یا رسول اللہ آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کرسکتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بہت عمدہ اور نفع بخش (راوی کو شک ہے یا شاید آپ نے فرمایا) فائدہ مند مال ہے تم نے جو کہا میں نے اسے سن لیا تاہم میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے قریبی عزیزوں میں خرچ کردو حضرت ابوطلحہ نے عرض کی یا رسول اللہ میں ایسا ہی کروں گا۔ (راوی کہتے ہیں) پھر حضرت ابوطلحہ نے وہ باغ اپنے چچازاد رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔

یہ حدیث شیئر کریں