مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 990

اس امت سے خطا و نسیان معاف ہے

راوی:

وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه " . رواه ابن ماجه والبيهقي

" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطاء و نسیان کو معاف کر دیا ہے اور اس گناہ سے بھی معافی عطا فرما دی ہے جس میں زبر دستی مبتلا گیا ہو ۔ " بیہقی )

تشریح :
خطا (جو مقصو اور ممدود دونوں طرح یعنی مد کے بغیر بھی اور مد کے ساتھ بھی آتا ہے ) اپنے مفہوم میں صواب کی ضد ہے اس کے معنی میں " چوک جانا " چنانچہ صراح میں لکھا ہے !خطاء بمعنی نا راست جو " صو اب " (درست وراست ) کا برعکس مفہوم ہے ۔ اسی مصدر سے نکلا ہوا لفظ" خطیہ " ہے جس کے معنی " گناہ " کے ہیں، یا ایک قول کے مطابق وہ گناہ جو غیر ارادی طور پر یعنی بلا قصد سرزد ہوا ہو اس کے لئے اخطاط کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح " مخطی" اس شخص کو کہتے ہیں جو ارادہ تو صواب یعنی راست ودرست عمل کا کرے مگر مبتلا غیر صواب یعنی نا راست وغیر درست عمل میں ہو جائے ۔ اس شخص نے خطا کی، یا اس شخص سے خطا ہو گئی ، یہ بات ایسے آ دمی کے بارہ میں کہی جاتی ہے جس نے قصدا ارادہ تو کسی درست عمل کا کیا تھا لیکن اچانک اس سے وہ عمل واقع ہو گیا ہو جو غیر درست تھا، مثلا اس نے شکار کو نشانہ بنا کر بندوق چلائی تھی مگر بندوق کی گولی اچانک کسی انسان کو لگ گئی اور اس طرح وہ اس انسان کے قتل خطا کا مرتکب ہو گیا ، یا یہ کہ مثلاً وہ آ دمی روزہ سے تھا ، کلی کرنے کے قصد سے اس نے منہ میں پانی لیا اور وہ پانی اچانک حلق میں اتر گیا ، پس اس حدیث میں " خطاء" کے یہی معنی مراد ہیں ۔
" نسیان " اپنے مفہوم میں " حفظ " کی ضد ہے اس کے معنی ہیں بھو لنا " سہو " کا لفظ " نسیان " کے معنی میں آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ، اس شخص نے فلاں کام میں سہو کیا ۔ یعنی وہ اس کام کو بھول گیا اس سے غافل رہا اس کا دھیان کسی اور کام میں الجھ گیا تھا، ان لفظی وضاحتوں کے بعد اب سمجھئے کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے خطاء ونسیان کو معاف کر دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خطاء ونسیان کے تحت کوئی غیر درست ناروا فعل سرزد ہو جائے تو اس پر گناہ نہیں ہوتا ، اس فعل کا مرتکب گناہ گار نہیں ہوگا، یہ مطلب نہیں کہ خطار ونسیا کے تحت سرزد ہونے والا ہر فعل دنیاوی طور پر بھی کسی شرعی قائدے و قانون کی گرفت میں نہیں آتا ، چنانچہ خود قتل خطاء پر دیت اور کفارہ کا واجب ہونا ثابت ہے ، اسی طرح کسی ایسی چیز کا خطاء ارتکاب ہو جائے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس روزہ کی قضا واجب ہوتی ہے ۔ ہاں نسیان کی صورت میں روزے کی قضاء واجب نہیں ہوتی کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس میں رعایت دی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آ یا ہے کہ روزہ میں اگر بھولے سے کوئی چیز کھالی یا کوئی چیز پی لی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ تم اپنے اس روزہ کو پورا کرو کیونکہ تمہارا وہ کھانا پینا اللہ ہی کی طرف سے ہے، نیز نماز میں اگر نسیان اور سہو واقع ہو جائے تو اس پر سجدہ واجب ہوتا ہے ۔ اسی طرح کوئی شخص اگر کسی کا مال سہواً تلف کر دے تو اس پر ضمان ( معاوضہ ) واجب ہوتا ہے ۔
" اور اس گناہ سے بھی معافی عطا فرما دی ۔ ۔ ۔ " اس جملہ میں وما استکر ھوا علیہ کا لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ ہے ، یعنی وہ گناہ جو زور و زبردستی سے کرائے گئے ہوں ۔ مطلب یہ کہ اگر کسی شخص کو کسی ایسے فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو جس کو وہ گناہ ہونے کی وجہ سے قطعی ناپسند کرتا ہوا اور اس کے ارتکاب میں اس کے اپنے قصد و ارادہ کو ذرا دخل نہ ہو تو وہ شخص گناہ گار نہیں ہوگا اگرچہ اس کو مجبور کرنے کے لئے قتل یا ضرب شدید جیسی کسی سخت دھمکی کا استعمال نہ کیا گیا ہو ، تاہم اس ( زور و زبردستی سے کرائے گئے گناہوں اور جرائم کے ) سلسلہ میں حق اللہ اور حق العباد کے تعلق سے شرعی احکام و قوانین کی الگ الگ نوعیتیں اور شقیں ہیں جن کی تفصیل اصول کی کتابوں میں مذکور ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں