امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا حال
راوی:
عن جعفر عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أبشروا إنما مثل أمتي مثل الغيث لا يدرى آخره خير أم أوله ؟ أو كحديقة أطعم منها فوج عاما لعل آخرها فوجا أن يكون أعرضها عرضا وأعمقها عمقا وأحسنها حسنا كيف تهلك أمة أنا أولها والمهدي وسطها والمسيح آخرها ولكن بين ذلك فيج أعوج ليسوا ولا أنا منهم " رواه رزين
" حضرت امام جعفر صادق اپنے والد (حضرت امام محمد باقر ) سے اور وہ امام جعفر کے دادا ( یعنی اپنے والد حضرت امام زین العابدین علی بن حسین بن علی ) سے روایت کر تے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خوش ہو جاؤ ، اور خوش ہو جاؤ ، بات یہ ہے کہ میری امت اجابت کے افراد کا حال ( حصول منفعت کے اعتبار سے ) بارش کے حال کی مانند ہے جس کے بارہ میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اخیر بہتر ہے یا اس کا اول بہتر ہے، یا میری امت کی مثال ایک باغ کی مانند ہے جس ( کے کچھ حصوں سے ) ایک سال ایک جماعت نے کھایا یعنی نفع اٹھایا اور اس (کے کچھ حصوں سے ) دوسرے سال ایک اور جماعت نے کھایا، ممکن ہے وہ جماعت جس نے آخر میں باغ سے کھایا ( پہلی جماعت کے مقابلہ میں ) چوڑائی اور گہرائی میں زیادہ ہو اور خوبیوں میں بھی اس سے بہتر ہو، بھلا وہ امت کیونکر ہلاک ( یعنی نیست و نابود ) ہو جس کا اول میں ہوں جس کے وسط میں مہدی ہوں گے اور جس کے آخر میں مسیح ہوں گے، ہاں ان زمانوں کے درمیان ایک کج رو ( یعنی گمراہ) جماعت پیدا ہوگی، اس جماعت کے لوگ میرے راستہ و طریقہ پر چلنے والے اور میرے متبعین میں سے نہیں ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں یعنی میں ان سے راضی اور ان کا حامی ومددگار نہیں بلکہ ان کی سرکشی اور ان کے فسق کے سبب ان سے اپنی نا راضگی اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ " (رزین)
تشریح :
" خوش ہو اور خوش ہو ۔ ۔ ۔ " یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار یا تو تاکید کے لئے فرمائے یا اس تکرار میں یہ نقطہ ملحوظ تھا کہ ایک بشارت تو دین کے اعتبار سے ہے اور ایک بشارت آخرت کے اعتبار سے ۔
چوڑائی اور گہرائی میں ۔ ۔ ۔ یہاں " چوڑائی اور گہرائی " سے جماعت کی کثرت اور لوگوں کی بڑی تعداد کے معنی مراد ہیں ، اس جملہ میں طول ، (لمبائی ) کا ذکر اس لئے نہیں ہے کہ عرض اور عمق طول کے بعد ہوتا ہے ، جب عرض اور عمق کا ذکر آ گیا تو گویا طول کا بھی ذکر ہوگیا ۔