امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال
راوی:
عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " مثل أمتي مثل المطر لا يدرى أوله خير أم آخره " . رواه الترمذي
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول کریم صلی علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا حال بارش کے حال کی طرح ہے جس کے بارہ میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اول بہتر یا اس کا آخر بہتر ہے ۔ " (ترمذی )
تشریح :
بارش کی مثال کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کا ذکر جس انداز میں کیا اس سے بظاہر تو شک وتردد اور عدم یقین اس میں سمجھا جاتا ہے کہ معلوم نہیں کہ اس امت کے پہلے لوگ بہتر تھے یا بعد کے لوگ بہتر ہیں ، لیکن حقیقت میں حدیث سے یہ مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ بارش کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ پوری امت اچھی ہے جیسا کہ سوکھے اور خشک موسم میں جب باران رحمت نازل ہوتی ہے تو وہ پوری بارش ہی اچھی اور نافع مانی جاتی ہے ، اس طرح امت محمدی صلی علیہ وسلم میں پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے والے اور بعد کے زمانوں کے سچے اور نیک مسلمان بھی خیر یعنی اچھا ہونے اور فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے برابر ہیں، پس لفظ " خیر " دین کے اعتبار سے فضیلت ظاہر کرنے والے اسم تفصیل کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے ۔ رہا یہ سوال کہ امت کے اول اور آخر دونوں سے تعلق رکھنے والے اچھا اور نافع ہونے میں برابر کیسے ہیں ؟ تو وہ یوں کہ دور اول کے لوگوں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت کا شرف پایا ، آنحضرت صلی علیہ وسلم کی ہر حالت میں اتباع کی، آپ صلی علیہ وسلم کی دعوت اسلام دوسروں تک پہنچائی، آپ صلی علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور آپ صلی علیہ وسلم کے پیش کئے ہوئے دین کے فوائد وہدایات کی بنیاد رکھی ۔ آپ صلی علیہ وسلم کے دین متین کو اعانت وتقویت پہنچائی اور آنحضرت صلی علیہ وسلم کی ہر طرح سے مدد وحمایت کی تو بعد کے امتیوں نے آنحضرت صلی علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت اور آپ صلی علیہ وسلم کی شریعت کو جو کا توں تسلیم کیا ، رسالت و شریعت کے ہر جز پر مضبوط عقیدے کے ساتھ جمے رہے ، آپ صلی علیہ وسلم کے دین کی حفاظت اور دین کو استحکام و رواج دیا دینی قواعد وہدایات کی بنیاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ، یا دین وشریعت کے ارکان کو مضبوط ومستحکم کیا ، اسلام کے جھنڈے کو سر بلند کیا ، اسلام کی روشنی کو چار دانگ عالم میں پھیلایا اور اس کے برکات و اثرات تمام عالم پر ظاہر کئے اور اگر لفظ" خیر " کو اسم تفضیل کے معنی پر محمول کیا جائے تو بھی اس اعتبار سے درست ہوسکتا ہے کہ " خیر " (بہتر ہونے ) کے وجوہ اور اسباب متعدد ہو تے ہیں جن اسباب و وجوہ کے اعتبار سے دور اول کے امتی بہتر تھے، ان کے علاوہ بعض اور اسباب و وجوہ سے بعد کے زمانہ کے امتی بہتر ہیں گو یا حاصل یہ نکلا کہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نافع اور اچھا ہونے کے اعتبار سے پوری امت یکساں اور برابر ہے اور اس پر بھی دلالت کرتی ہے، کہ وجوہ واسباب کے تعدد وا ختلاف کے مد نظر دور اول کے امتی اپنے اعتبار سے بہتر ہیں اور بعد کے زمانہ کے امتی اپنی نو عیت سے بہتر ہیں ، لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ جہاں تک کلی فضیلت کا تعلق ہے وہ صرف دور اول کے امتیوں یعنی صحابہ کے لئے مخصوص ہے ۔ اگرچہ یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص درجہ و نوعیت کے تحت بعد کے امتیوں میں سے کسی کے لئے جزوی فضیلت ثابت کی جائے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ کلی فضیلت سے مراد " اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ثواب پانا " ہے۔
اور تور پشتی نے لکھا ہے : یہ حدیث بعد کے امتیوں پر دور اول کے امتیوں کی فضیلت وبرتری میں شک وتردد پر ہرگز محمول نہیں ہے کیونکہ قرن اول ( صحابہ کا زمانہ ) تمام قرنوں سے بلا شک وشبہ افضل ہے پھر اس کے بعد کے قرن کے امتی اپنے بعد والے تمام قرنوں سے افضل ہیں اور پھر اس کے بعد کے قرن کے امتی اپنے بعد وا لے تمام قرنوں سے افضل ہیں پس اس حدیث کی مراد بس یہ بیان کرنا ہے کہ دین و شر یعت پھیلا نے کے اعتبار سے پوری امت نافع ہے ۔ اسی طرح کی بات قاضی نے بھی ایک طویل عبارت میں لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح بارش کے بارہ میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کون سا حصہ زیادہ مفید اور نفع بخش ہے اور کس وجوہ سے " خیر " کا وجود ہے اور کن افراد میں " خیر " کا وجود نہیں ہے، کیونکہ وجود خیر کی مختلف جہتیں اور مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں اور اس اعتبار سے امت کا ہر دور اپنی اپنی حیثیت اور جہت سے " وجود خیر " کا حامل ہوگا، تاہم الفضل للمتقدم کے اصول کے تحت فضیلت انہی امتیوں کے لئے ہے جو دور اول میں تھے، یعنی صحابہ اور یہ حدیث بعد کے زمانے والے امتیوں کے لئے تسلی کا مصدر ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ رب العلمین کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس کی بار گاہ سے حصول فیض کی توقع ہر حال میں باقی ہے۔
اس حدیث کی شرح میں طیبی لکھتے ہیں، امت کو بارش کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے وہ محض ہدایت اور علم کو سامنے رکھ کر دی گئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بارش کو ہدایت اور علم کے مشابہت دی ہے پس حدیث مذکورہ میں " امت " جس کو بارش کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے اس سے مراد علماء کاملین ہیں کہ جو خود بھی کامل ہو تے ہیں اور دوسروں کو بھی درجہ کمال تک پہنچاتے ہیں، یہ وضاحت بھی گویا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ " خیر " سے " نفع " کے معنی مراد لئے جائیں جس سے " فضیلت " میں پوری امت کا یکساں ہونا لا زم نہیں آتا، خلا صہ کلام یہ کہ امت محمدی اپنے کسی دور میں " خیر " سے خالی نہیں رہے گی ، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کو " امت مرحومہ " فرمایا ہے اور یہ ثمرہ ہے اس بات کا کہ اس امت کا نبی " نبی رحمت " ہے بخلاف دوسری امتوں کے کہ ان کے ہاں " خیر " کا وجود صرف ابتدائی دور میں رہا اور پھر بعد والوں میں " شر " آ گیا اور اس طرح آ یا کہ انہوں نے اپنی مقدس آسمانی کتابوں تک کو بدل ڈالا اور تحریفیں کر کر کے اپنے دین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس پر ان کے دور اول کے لوگ تھے ۔