شام ، یمن اور عراق کا ذکر
راوی:
عن ابن حوالة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " سيصير الأمر إلى أن تكونوا جنودا مجندة جند بالشام وجند باليمن وجند بالعراق " . فقال ابن حوالة : خر لي يا رسول الله . إن أدركت ذلك . فقال : " عليك بالشام فإنها خيرة الله من أرضه يجتبي إليها خيرته من عباده فأما إن أبيتم فعليكم بيمنكم واسقوا من غدركم فإن الله توكل لي بالشام وأهله " . رواه أحمد وأبو داود
اور حضرت ابن حولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور ملت کا یہ نظام ہوگا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر ) ابن حولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو ) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا ۔ " (احمد ، ابوداؤد )
تشریح :
جنودا مجندۃ (جدا جدا کئی لشکر ) کے الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے وہ تمام لشکر کلمہ اسلام کی بنیاد پر تو باہم متحدد و متفق ہوں گے لیکن دینی اور ملی احکام ومسائل کی ترجمانی اور ان کے اختیار کرنے میں جدا جدا نقطہ نظر کے حامل ہوں گے ۔
" عراق " سے مراد یا تو اس کا وہ عرب علاقہ ہے جس میں بصرہ اور کوفہ وغیرہ شامل ہیں یا اس کا وہ غیر عرب علاقہ مراد ہے جس میں خراسان اور ماورالنہر کو چھوڑ کر باقی دوسرے عجمی حصے شامل تھے ۔
" تو اپنے یمن کو اختیار کرنا " اس میں یمن کی اضافت ان ( حضرت ابن حولہ کے واسطہ سے عرب سامعین کی طرف اس بنا پر کی کہ اس وقت اس ارشاد رسالت کے براہ راست مخاطب عرب تھے اور یمن کا جغرافیائی اور علاقائی تعلق ملک عرب ہی سے تھا، واضح ہو کہ فاما ان ابیتم (پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا ) کے الفاظ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں جو اس ارشاد رسالت کے ایک ہی سلسلہ کے دو حکم یعنی علیک بالشامتو (شام کو اختیار کرنا) اور واسقو ا من غدرکم (اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا ) کے درمیان واقع ہوا ہے ، گویا اصل عبارتی تسلسل یوں تھا کہ : تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو ) اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، اس عبارت کے درمیان آپ نے جملہ معترضہ کے طور پر یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی وجہ سے شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو پھر اپنے یمن ہی کو اختیار کرنا ،
اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا " غدر (اصل میں غدیر کی جمع ہے جس کے معنی حوض کے ہیں اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ شام میں پہنچ کر اس بات کا دھیان رکھنا کہ وہاں کے ملکی وملی امن وانتظام میں تمہاری وجہ سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو، لڑائی جھگڑے اور فتنہ وفساد سے اجتناب کرنا ، مثلا پانی کی فراہمی کے سلسلہ میں جو ذریعہ تمہارے لئے مخصوص ہو اسی سے اپنے لئے پانی حاصل کرنا کسی دوسرے کے حصہ میں سے پانی لے کر دوسروں سے مزاحمت اور معارضہ کی صورت ہرگز پیدا نہ ہو خصوصا ان لوگوں سے جو دشمنان دین سے اسلامی مملکت کو محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی سرحد پر مامور ومتعین ہوں تاکہ تم آپس میں نزع واختلاف اور فتنہ انگیزی کا سبب نہ بن جاؤ ۔