مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ صور پھونکے جانے کا بیان ۔ حدیث 97

قیامت کے دن زمین وآسمان کی تبدیلی کے متعلق

راوی:

وعن عائشة قالت سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قوله ( يوم تبدل الأرض غير الأرض والسماوات )
فأين يكون الناس يومئذ ؟ قال على الصراط . رواه مسلم .

" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ) 14۔ ابراہیم : 48) جس روز زمین بدل دی جائے گی اس زمین کو بدل دیا جائے گا اور ان کے علاوہ اور آسمان بھی ( یعنی قیامت کے دن موجودہ زمین وآسمان کو بدل دیا جائے گا اور ان کے بجائے دوسرے زمین وآسمان پیدا کئے جائیں گے ) کے بارے میں پوچھا کہ اس دن جب کہ زمین وآسمان کی تبدیلی واقع ہوگی ) لوگ کہاں ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا " پل صراط پر ۔ " ( مسلم )

تشریح :
لفظ صراط کے اصل معنی " راستہ " کے ہیں اور یہاں حدیث میں " صراط " سے مراد " پل صراط ' ہے یعنی وہ پل جس کے بارے میں شارع نے خبر دی ہے کہ وہ دوزخ کی پشت پر بنا ہوا ہے اور جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پل صراط کے بجائے کوئی بھی " صراط " مراد ہو ۔
قیامت کے دن زمین کے تبدیل کئے جانے سے کیا مراد ہے ؟ اس سلسلے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، جس میں سے ایک قول تو یہ ہے کہ قیامت کے دن زمین کو سفید روٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا، چنانچہ اہل ایمان میدان حضر میں حساب سے فارغ ہونے کے وقت تک اپنے قدموں کے نیچے سے یہی روٹی توڑ توڑ کر کھاتے رہیں گے ، اس قول کی تائید اسی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو آگے آنے والے باب الحشر کی پہلی حدیث ہے ، نیز آسمان کے تبدیل کئے جانے سے مراد یہ ہے کہ تارے ٹوٹ پھوٹ کر گرپڑیں گے اور چاند وسورج کو کہن کی صورت میں معطل و بیکار کر دیا جائے گا ! اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ کسی بھی چیز کی تبدیلی دو صورتوں میں ہوتی ہے ایک تو ذات ( یعنی اصل چیز) کی تبدیلی ، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے سونے کو چاندی میں تبدیل کر لیا ہے ، یعنی سونا دیکر چاندی لے لی ہے اور دوسری صورت صفات کی تبدیلی ہے جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے چھلے کو انگوٹھی میں تبدیل کر لیا ہے ، یعنی چھلے کو پگھلا کر اس کی انگوٹھی بنوالی ہے ، اس صورت میں ذات ( یعنی اصل چیز مثلا سونا یا چاندی، تو ایک ہی رہتی ہے البتہ اس کی حقیقت اور صورت بدل جاتی ہے ، پس زمین وآسمان کے دوسری زمین اور دوسرے آسمان میں تبدیل کئے جانے والی بات ان دونوں صورتوں کا احتمال رکھتی ہے کہ اصل زمین وآسمان کی تبدیلی بھی مراد ہو سکتی ہے اور صفات یعنی ہیت وصورت کی تبدیلی بھی مراد ہو سکتی ہے ، لیکن سلف کے زیادہ تر اقوال اس طرف ہیں کہ صفات کی تبدیلی مراد ہے ، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زمین تو یہی زمین رہے گی البتہ اس کی صفات میں تغیر ہو جائے گا، اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ زمین کو اس طرح وسیع وکشادہ کر دیا جائے گا کہ اس میں کوئی نشیب وفراز باقی نہیں رہے گا تا ہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذات کی تبدیلی بالکل نا ممکن ہے، یقینا اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس زمین اور ان آسمانوں کی جگہ دوسری زمین اور دوسرے آسمان پیدا کر دے جیسا کہ بعض اقوال اس پر بھی دلالت کرتے ہیں، چنانچہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ حق تعالیٰ ایک ( نئی) زمین پیدا فرمائیں گے جو چاندی کی ہوگی اور جو آسمان پیدا فرمائینگے وہ سونے کا ہوگا، اسی طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی زمین پیدا فرمائیں گے جو سفید وپاکیزہ ہوگی اور اس پر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا ، خود حدیث کے ظاہری اسلوب سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ " تبدیلی " سے ذات کا تغیر مراد ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سوال کرنا اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس کی دلیل ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں