شام اور یمن کی فضیلت
راوی:
وعن ابن عمر قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم : " اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا " . قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ فأظنه قال في الثالثة : " هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان " . رواه البخاري
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی : خدایا !ہمیں ہمارے (ملک ) شام میں برکت عطا فرما اور خدایا !ہمیں ہمارے (ملک ) یمن میں برکت عطا فرما ۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نجد کے بارے میں بھی (دعا فرمائیے تاکہ ہمیں اس علاقہ کی طرف سے بھی برکت حاصل ہو) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی دعا فرمائی : خدایا! ہمیں ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور خدایا ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (دوبارہ ) عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے نجد کے بارے میں بھی (یہی دعا فرمائیے ) راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ تیسری بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر انہی الفاظ میں دعا کی اور نجد کے بارے میں ) فرمایا وہاں زلزلے ہوں گے فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوتا ہے ۔ " (بخاری )
تشریح :
دعا میں شام کے ذکر کو یمن کے ذکر پر مقدم رکھنا شاید اس بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد الذی بارکنا حولہ کے بموجب شام کی سر زمین جہاں فلسطین واقع ہے اپنی اصل کے اعتبار سے بابرکت ہے اور چونکہ یہی سر زمین بہت زیادہ انبیاء کرام کی آخری آرام گاہ ہے اس نسبت سے اس کا ذکر پہلے ہونا ضروری تھا ، واضح ہو کہ " شام میں برکت " سے مراد یا تو وہاں کی برکتوں میں اضافہ ہے یا ایسی برکت کہ جو اہل مدینہ اور تمام مؤمنین کو بالخصوص حاصل ہو ، اسی طرح " یمن میں برکت " سے ظاہری اور معنوی دونوں طرح کی برکتیں مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو ظاہر میں بھی خوشحال، پرامن اور فائدہ مند بنائے اور دینی و روحانی طور پر بھی وہاں کے لوگ دیندار اور صالح رہیں، چنانچہ یمن کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ مادی طور پر خوشحال اور زرخیز ملک بنایا بلکہ وہاں کی سر زمین نے بہت زیادہ اولیاء اور علماء بھی پیدا کئے۔
ایک قول کے مطابق ان دونوں ملکوں کے لئے برکت کی دعا کا ظاہری داعیہ یہ بھی ہے کہ اہل مدینہ کے لئے غلہ اور دوسری غذائی اشیاء انہی دونوں ملکوں سے آتی تھیں اور ایک شارح نے یوں لکھا ہے : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن اور شام کے لئے برکت کی دعا اس بناء پر فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور ظہور رسالت کی جگہ مکہ مکرمہ ہے اور مکہ مکرمہ یمن سے قرابت رکھتا ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن اور مدفن مدینہ منورہ ہے اور مدینہ منورہ شام سے قرابت رکھتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی چیز یعنی یمن کی قربت مکہ سے اور شام کی قربت مدینہ سے ان دونوں کی فضیلت کے لئے کافی ہے ، اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ملکوں کی اضافت اپنی طرف کر کے " ہمارا شام " اور " ہمارا یمن " فرمایا اور ان کی شان بڑھانے کے لئے ضمیر جمع استعمال فرمائی ، نیز ان کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار برکت کی دعا فرمائی ۔
" وہاں زلزلے ہوں گے …۔ ۔ " میں وہاں کا مطلب نجد کی سمت ہے اور نجد کی سمت سے مراد وہی حجاز کی مشرقی سمت ہے جس کا ذکر پیچھے حدیث میں نحو المشرق کے الفاظ میں آیا ہے " زلزلے" سے مراد ظاہری زلزلہ بھی ہے اور معنوی زلزلہ بھی ، معنوی زلزلہ کا مطلب ہے وہاں کے لوگوں کے دلوں کا اتھل پتھل ہونا ، بے قرار ہونا اور روحانی چین وسکون کا ختم ہوجانا " فتنوں " سے مراد وہ آفات اور مصائب ہیں جن سے دین میں ضعف وکمزوری اور نیکی ودیانت میں کمی ہوجائے ۔
" اور وہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوتا ہے " کا مطلب یہ تھا کہ نجد ہماری اس سمت میں واقع ہے جدھر کفر اور فتنوں کا زور ہے اور گویا نجد اس علاقہ میں ہے جہاں شیطان کی جماعت اور اس کے مدد گاروں کا ظہور زیادہ ہے ، لہذا ایسے علاقہ کے بارے میں برکت کی دعا کرنا موزوں نہیں ہے ۔