مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 963

اہل یمن کی فضیلت

راوی:

وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " أتاكم أهل اليمن هم أرق أفئدة وألين قلوبا الإيمان يمان والحكمة يمانية والفخر والخيلاء في أصحاب الإبل والسكينة والوقار في أهل الغنم " . متفق عليه

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (جب یمن سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ خدمت رسالت پناہ میں حاضر ہوئے تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں جو (تمہارے پاس آنے والے اور لوگوں کی بہ نسبت ) زیادہ رقیق القلب اور زیادہ نرم دل ہیں ایمان یمن کا ہے اور حکمت بھی یمنی ہے اور فخر (یعنی اپنے مال ومنصب وغیرہ کے ذریعہ اپنی بڑائی مارنا ) اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ہے ، جب کہ اطمینان وتحمل اور وقار بکری والوں میں ہے ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
ارق افئدۃ میں ارقکالفظ رقۃ سے ہے جس کے معنی نرمی اور رحم وشفقت کے ہیں اور جو قساوت یعنی سنگ دلی وبے رحمی اور غلاظت یعنی سختی و کثافت کی ضد ہے ۔ افئدۃ جمع ہے فؤ اد کی جس کے معنی " دل " کے ہیں بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ فؤ اد دل کے باطن کو کہتے ہیں جب کہ بعض حضرات کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق ظاہر طور پر ہوتا ہے ۔ بہرحال ارق افئدۃ کا مطلب یہ ہے کہ اہل یمن باطن کی حیثیت سے نرمی وشفقت اور رحم ومروت کا مادہ بہت زیادہ رکھتے ہیں اور الین قلوبا (نرم دل ہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل یمن بحسب ظاہر کے نصیحت وموعظت کا اثر اور لوگوں کی بہ نسبت جلد قبول کرلیتے ہیں قبول حق کی استعداد اور لوگوں کی بہ نسبت ان کے دل میں زیادہ ہے ۔
اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ افئدۃ جمع ہے فؤ اد کی جس کے معنی " دل " کے ہیں اور قلوب جمع قلب کی ، جو تقلب سے ہے اور جس کے معنی ہیں ، پلٹنا یعنی ایک حالت چھوڑ کر دوسری حالت کی طرف آنا ، چونکہ اکثر اہل لغت نے فواد اور قلب کا ذکر ایک ہی معنی میں کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ حدیث میں ان دونوں کا ذکر تاکید کے لئے ہے ۔ واضح ہو کر یہ حدیث باب وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری فصل میں بھی نقل ہوئی ہے لیکن وہاں صرف ارق افئدۃ کے الفاظ ہیں لین قلوبا کے الفاظ نہیں ہیں اور اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ معنی کے اعتبار سے یہ دونوں جملے یکساں ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ فواد اصل میں دل کے پردہ کو کہتے ہیں جب یہ پردہ باریک ہوتا ہے تو حق بات اس میں داخل ہوتی ہے اور دل تک پہنچ جاتی ہے اور پھر جب دل نرم ہوتا ہے تو وہ حق بات اس کے اندر بھی داخل ہوجاتی ہے پس رقت غلظت کی ہے اور " لین " صلابت کی ۔ اور یہ دونوں اسلامی دل کی ایک خاص کیفیت وحالت کا نام ہیں جب انسان کا دل اللہ کی اتاری ہوئی آیتوں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے پندونصائح سے متاثر نہیں ہوتا تو اس کو غلظت وصلابت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ، اور جب انسان کا دل ان سے متاثر ہوتا ہے اس کو رقت اور لین کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے یہاں علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حدیث میں " رقت " سے مراد جودت فہم ہو اور لین سے مراد حق بات کا قبول کرنا ہو ،
" ایمان یمن کا ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " یہاں یمانیۃ کا لفظ بعض روایتوں میں ی کی تشدید کے ساتھ یمانیۃ بھی منقول ہے ، بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان وحکمت کو یمن کے ساتھ اس اعتبار سے منسوب فرمایا کہ اس وقت کے دوسرے اہل مشرق کے مقابلے میں یمن کے لوگ سب سے زیادہ کمال ایمان کے ساتھ متصف تھے اور جیسا کہ باب بدء الخلق کی روایت میں گذرا یہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ہی تھے ، جنہوں نے قبول اسلام کے لئے بمعنی لوگوں کی سربراہی کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آفرنیش عالم ، ابتدائے کائنات اور اس سلسلے کے حکم واسرار کے بارے میں سوال کرکے حکمت ودانائی سے یمنی لوگوں کی فطری وابستگی کا اظہار فرمایا اور یہ پھر حکمت ودانائی کا کمال انہی کا طفیل اور انہی کی وراثت تھی جس کا ظہور حضرت ابوالحسن اشعری کی ذات میں ہوا جو اہل سنت والجماعت آئمہ میں سے ہیں اور حضرت موسی اشعری کی اولاد میں سے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہاں " حکمت " سے مراد " رفقہ فی الدین " ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ " حکمت " سے مراد منہ سے صرف ایسی نیک بات نکلنا ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید ہو اور ہلاکت وتباہی سے بچانے والی ہو۔
" اور فخر اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ حیوانات اور جانوروں کی مخالطت انسان کی طبیعت وسرشت پر اثر انداز ہوتی ہے جو انسان جس جانور کے ساتھ اپنا وقت زیادہ گزارتا ہے اس کے اندر وہ خصلت خود سرایت کر جاتی ہے جو اس جانور کی طبیعت وطینت کا خاصہ ہوتی ہے ۔ مثلا کوئی شخص اونٹوں کے درمیان رہتا ہے اور اونٹ چرانے کا کام کرتا ہے تواونٹ کی سرشت میں قساوت وغلظت ہے اس لئے اس شخص کی خو اور اس کی عادات واطوار میں بھی قساوت اور غلظت آجاتی ہے ، اسی طرح بکری ایسا جانور ہے جس کی طبیعت میں تحمل نرمی اور مسکینی ہوتی ہے ، پس جو شخص بکریاں پالتا ہے ، بکر یاں کے درمیان رہتا ہے اور بکریاں چراتا ہے تو اس کی خو اور اس کے عادات واطوار میں تحمل نرمی اور مسکین آجاتی ہے ، اسی پر دوسرے جانوروں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے اور بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ بکریاں پالنے والے اور بکریاں چرانے والے آبادی کے قریب رہتے ہیں اور بستی والوں سے خلط ملط رکھتے ہیں کیونکہ بکریاں پانی کے بغیرصبر نہیں کرسکتیں اور جاڑے وغیرہ کے سخت موسم کو برداشت کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوتی ۔ اور اس بناء پر وہ آبادی سے دور ویرانوں اور بے آب وگیاہ میدانوں میں نہیں جاتیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کی سرشت میں نرمی اور مسکینی اور کمزوری شامل ہوتی ہے اور یہ بعض آبادیوں میں اور لوگوں کے درمیان رہنا ایسی چیز ہے جو طبیعت میں نرمی ومروت پیدا کرتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لے جاتی ہے اور اپنے حاکم کی سرکشی سے باز رکھتی ہے ، اس کے برخلاف اونٹ ایک ایسا سخت طبیعت جانور ہوتا ہے جو آبادیوں اور بستیوں سے دور میدانوں اور صحراؤں میں زیادہ رہتا ہے اور اسی سبب سے اونٹ والوں کو بھی آبادی سے دور رہنا پڑتا ہے اور لوگوں سے ان کا ملنا جلنا کم ہی ہوتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جو طبیعت میں سختی ودرشتی ، طغیانی وسرکشی اور حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری سے انحراف کا مادہ پیدا کردیتی ہے ، اس جملہ کی وضاحت میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اونٹ مالیت کے اعتبار سے بڑا اور قیمتی اثاثہ ہوتا ہے اس کے برخلاف بکری کم قیمت اثاثہ ہوتی ہے ظاہر جس شخص کے پاس اونٹ ہوں گے وہ اپنے کو زیادہ مالدار سمجھے گا اور یہ چیز اس میں غرور وتکبر پیدا کرنے والی ہوگی اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں گی وہ اپنے کوزیادہ مالدار نہیں سمجھے گا اور یہ چیز اس کے اندر نرمی وقناعت اور مسکینی پیدا ہونے کا باعث بنے گی ۔

یہ حدیث شیئر کریں