مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں ۔ حدیث 931

زبیر بن عوام

راوی:

حضرت زبیر بن عوام عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، چوتھی پشت " قصی" پر پہنچ کر ان کا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب ایک ہو جاتا ہے، ان کی والدہ ماجدہ حضرت صفیہ عبد المطلب کی بیٹی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک صاحبزادی حضرت اسماء ان کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے اور ان کی والدہ حضرت صفیہ نے ایک ساتھ حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ۔ اس وقت ان کی عمر ١٦سال اور ایک روایت کے مطابق ٢٥سال تھی ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے چچا نے ان کو سخت اذیتیں پہنچائیں ، یہاں تک کہ وہ ان کو دھوئیں میں بند کر کے ستایا تھا اور کہتا تھا کہ جب تک تم اسلام کو ترک نہیں کرو گے اسی طرح تم پر ظلم ڈھاتا رہونگا ، مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں آئی اور ہر سختی ان کے قدم کو راہ اسلام پر اور زیادہ مضبوطی سے جماتی رہی، ان کی پہلی ہجرت حبشہ کو ہوئی تھی ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر اور دوسرے غزوات میں شرکت کی غزوہ احد میں جب کہ دشمن نے چاروں طرف سے یلغار کر رکھی تھی اور اسلامی لشکر افراتفری کے عالم میں تھا، حضرت زبیر نہایت بہادری اور پامردی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ڈٹے رہے، منقول ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے اللہ کی راہ میں تلوار سونتی حضرت زبیر ابن عوام ہیں ۔
حضرت زبیر کا رنگ گورا، چہرہ پر جمال و روشن تھا، دراز قد تھے جسم پر گوشت ہلکا تھا، بال بہت تھے اور رخسار ہلکے تھے ، حضرت زبیر ٣٦ھ میں جنگ جمل کے دوران شہید ہوئے ۔ اس وقت ان کی عمر ٦٤سال تھی پہلے جسد خاکی کو دار السباع میں دفن کیا گیا پھر بصرہ لایا گیا اور وہیں ان کو آخری آرام گاہ بنی منقول ہے کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کی حالت میں تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر کے ایک شخص ابن جرموز نے ان پر حملہ کیا اور شہید کر ڈالا ، بعد میں ابن جرموز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور بولا کہ : آپ کو خوش خبری ہو میں نے زبیر کو قتل کر ڈالا ہے ۔ سیدنا علی کرم اللہ و جہہ نے جواب دیا اور تو بھی خوش خبری سن لے کہ دوزخ تیرا انتظار کر رہی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں