حضرت معاویہ
راوی:
وعن عبد الرحمن بن أبي عميرة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال لمعاوية : " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به " . رواه الترمذي
اور حضرت عبدالرحمن بن عمیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ کے حق میں یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! اس کو راہ راست دکھانے والا اور راہ راست پایا ہوا بنا اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما ۔ " (ترمذی )
تشریح :
اس میں شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مستجاب ہے پس جس شخص کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مستجاب دعا فرمائی ہو اس کے بارے میں کسی طرح کا شک وشبہ کرنا اور کوئی برا خیال قائم کرنا ہرگز روا نہیں ہے ۔ "
حضرت معاویہ اموی قریشی ہیں ان کی ماں کا نام ہندہ ہے جو قریش کے ایک بڑے سردار کی بیٹی تھیں اور ان کے والد ابوسفیان ہیں جو خود قریش کے ایک بڑے سردار تھے جن لوگوں نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا ابوسفیان ان میں سے ایک ہیں ۔ مسلمان ہوجانے کے بعد یہ ابوسفیان کچھ دنوں تک " مؤ لفۃ القلوب " میں شمار ہوئے پھر اسلام اور مسلمانوں کے جاں نثار اور وفا شعا رخادم بنے حضرت معاویہ ان صحابہ میں سے ایک ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے ، لیکن بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وحی کی کتابت انہوں نے مطلق نہیں کی البتہ خطوط نویسی کا کام ان کے سپرد تھا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشی تھے حضرت عمر فاروق کے دور میں شام کے حاکم مقرر ہوئے اور تقریبا بیس سال یعنی حضرت عثمان غنی کے آخر میں عہد خلافت تک اسی عہدہ پر رہے ۔ پھر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت اور معاویہ کی حکومت شام کے درمیان ٹکراؤ رہا اور باقاعدہ جنگوں تک کی نوبت آئی ۔ حضرت علی کی وفات کے بعد جب سیدنا امام حسن اور امیر معاویہ کے درمیان مصالحت ہوگئی توتمام عالم اسلام نے امیر معاویہ کو خلیفہ وقت تسلیم کیا اور تقریبا بیس سال تک تمام اسلامی دنیا کے خلیفہ وامیر رہے ماہ رجب ٦٠ھ میں بعمر اٹھتر سال دمشق میں ان کا انتقال ہوا آخر عمر میں ان کو لقوہ ہوگیا تھا اپنے آخر زمانہ میں بڑی حسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں قریش کے معمولی فرد کی طرح (مکہ کے ایک مقام ) ذی طویٰ میں پڑا رہتا اور اس حکومت وخلافت کی کوئی چیز نہ دیکھتا ، منقول ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ تبرکات محفوظ تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چادر ، ایک تہبند اور ایک کرتا تھا ، ان مبارک کپڑوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موئے مبارک اور ناخن بھی تھے مرتے وقت حضرت امیر معاویہ نے وصیت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کرتے میں مجھ کو کفنایا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں مجھ کو لپیٹا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہبند کو میرا ازار بنایا جائے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو موئے مبارک اور ناخن ہیں ان میں سے کچھ کو میرے حلق کے گڑھے میں بھر دیا جائے اور کچھ کو میرے سجدے کی جگہوں پر باندھ دیا جائے اور پھر میرے ارحم الراحمین کے درمیان تخلیہ کردیا جائے ، یعنی دفنا کر کے مجھ کو میرے اللہ کے سپرد کردیا جائے ۔ "