حذیفہ اور ابن مسعود کی فضیلت
راوی:
وعن حذيفة قال : قالوا : يا رسول الله لو استخلفت ؟ قال : " إن استخلفت عليكم فعصيتموه عذبتم ولكن ما حدثكم حذيفة فصدقوه وما أقرأكم عبد الله فاقرؤوه " . رواه الترمذي
" اور حضرت حذیفہ بن الیمان بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) چند صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے ہی صحابہ میں سے کسی کو اپنا خلیفہ مقرر فرما دیتے تو اچھا ہوتا (یایہ معنی ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کسی کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو وہ کون ہوتا ! ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میں کسی کو تمہارے اوپر خلیفہ مقرر کردوں اور پھر تم اس کی نافرمانی کرو تو تم عذاب میں پکڑے جاؤگے ، تاہم (میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ ) حذیفہ تم سے جو کچھ کہیں یا جو حدیث بیان کریں اس کو سچ جانو اور عبد بن مسعود تم کو جو کچھ پڑھائیں اس کو پڑھو۔ " (ترمذی )
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں جواب دیا ، اس کا تعلق حکیمانہ اسلوب سے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یوں فرمایا کہ یہ بات تمہارے لئے اتنی ضروری نہیں ہے کہ ابھی سے خلافت کی فکر میں لگ جاؤ اور منصب خلافت کے لئے کسی کو نامزد یا مقرر کرنے کی درخواست مجھ سے کرو ۔ کیونکہ یہ تو وہ معاملہ ہے جو اللہ کے حکم سے اپنے وقت پر تمہارے سامنے بہرصورت ظاہر ہوجائے گا ، بایں طور کہ تم جس اہل وموزوں شخص پر اتفاق واجماع کر لوگے وہی خلیفہ بن جائے کا ۔ علاوہ ازیں ، میری طرف سے منصب خلافت کے لئے کسی کی نامزدگی یا تقرری میں ایک مانع یہ بھی ہے کہ فرض کرو کہ میں نے تمہاری درخواست پر کسی کو ابھی سے خلیفہ متعین یا نامزد کردیا اور پھر میرے بعد تم نے اس خلیفہ کی نافرمانی کی یا اس کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تو بالیقین اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں پکڑے جاؤگے ۔ لہٰذا تو خلافت کی فکر چھوڑو اور کتاب وسنت پر عمل پیرا اور ان کے راستہ پر مضبوطی سے گامزن رہنے کی دھن باندھو کہ یہی بات تمہارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ہے ۔
" حذیفہ " تم سے جو کچھ کہیں " یہاں خاص طور پر انہی دونوں صحابہ یعنی حضرت حذیفہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کا ذکر اس سبب سے ہوا کہ اول تو علم ویقین میں ان کو ممتاز حیثیت اور ان کی بڑھی ہوئی فضیلت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا دوسرے یہ کہ کسی صاحب ایمان کو جس چیز سے اجتناب وپرہیز سب سے زیادہ کرنا چاہئے وہ" نفاق " ہے اور جس چیز کو سب سے زیادہ ماننا اور بجا لانا چاہئے وہ " احکام شریعت " ہیں چنانچہ پہلی چیز یعنی " نفاق " کا علم وادراک رکھنے والے سب سے اہم صحابی حضرت حذیفہ تھے کہ ان کو " صاحب سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " کا خصوصی درجہ حاصل تھا اور منافقوں کے بارے میں جتنا کچھ وہ جانتے تھے اتنا کوئی صحابی نہیں جانتا تھا ۔ دوسری چیز یعنی احکام شریعت کا بہت زیادہ علم رکھنے والے صحابی حضرت عبداللہ ابن مسعود تھے جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے رضیت لامتی مارضی بہ ابن ام عبد (میری امت کے لئے ابن عبد یعنی عبداللہ بن مسعود کی پسند میری پسند ہے ) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمسکوا بعہدابن عبد (اے مسلمانو! ابن عبد یعنی عبداللہ بن مسعود کی تلقین ونصیحت اور ان کی رائے پر پوری طرح عمل کرو) یہاں علماء نے بطور نکتہ لکھا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں اور اسی طرح اس فصل کی پہلی حدیث میں ایک طرح سے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کا بیان بھی ہے چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب خلیفہ کے انتخاب کامسئلہ درپیش تھا ۔ تو حضرت عبداللہ ابن مسعود نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنانے کی رائے دیتے ہوئے کہا تھا : ابوبکر وہ شخص ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری پیشوائی (یعنی امامت نماز کے لئے ) آگے کیا تھا اس لئے ہمیں اپنی دنیاوی قیادت کے لئے بھی انہی کو آگے رکھنا چاہئے ۔