حضرت ابوذر کی فضیلت
راوی:
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما أظلت الخضراء ولا أقلت الغبراء من ذي لهجة أصدق ولا أوفى من أبي ذر شبه عيسى بن مريم " يعني في الزهد . فقال عمر بن الخطاب كالحاسد : يا رسول الله أفتعرف ذلك له ؟ قال : " نعم فاعرفوه له " . رواه الترمذي وقال : حديث حسن غريب
" حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی ایسے بولنے والے پر نہ تو نیلگوں آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اس کو اٹھایا جو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ راست گو ہو اور اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ ادا کرنے والاہو ۔ وہ ابوذر جو عیسی بن مریم علیہ السلام کے مشابہ ہیں یعنی زہد میں ۔ " (ترمذی )
تشریح :
اوفی کا ترجمہ بعض شارحین نے یہ کیا ہے کہ : جو کلام وگفتگو کا حق ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ ادا کرنے والا ہو ، اور کلام کا ایک حق تو یہ ہے کہ صحیح ، سچی اور نیک بات کے علاوہ اور کچھ زبان پر نہ لایا جائے اور ایک حق یہ ہے کہ تلفظ کی ادائیگی ، جملوں کی ساخت الفاظ کے استعمال اور مفہوم ومعنی کے اظہار میں کوئی فروگزاشت نہ ہوپس حدیث کا حصل یہ ہے کہ ابوذر اظہار حق میں ذرا بھی چشم پوشی ومداہنت نہیں کرتے ہمیشہ راست گفتاری وصاف گوئی سے کام لیتے ہیں جس بات کو حق اور سچ سمجھتے ہیں برملا کہہ دیتے ہیں چاہے وہ کیسی ہی تلخ ہو اور کسی کے لئے کتنی ہی ناگوار ہو نیز وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے پکے مطیع و فرمانبردار ہیں ، یا یہ کہ وعدہ اور عہد کو پورا کرتے ہیں اور یہ کہ اپنی بات کو بڑی وضاحت اور فصاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں غرضیکہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی شخص ابوذر کے برابر راست گو اور اپنی بات کا پورا ، یا اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ادا کرنے والا فصیح اللسان نہیں ہے ۔
" جو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے مشابہ ہیں " ان الفاظ میں حضرت ابوذر کے کمال زہد ودرع اور ان کے تجرد کی طرف اشارہ ہے چنانچہ ان کے زہد اور دنیا سے ان کی بے تعلقی وبے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ دنیا کی ناجائز ومباح لذتوں سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھتے تھے ، تجرد کی بے کیف زندگی پر پوری طرح قانع وصابر تھے مال جمع کرنا ان کے نزدیک حرام تھا ، چاہے وہ کتنے ہی جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو اور زکوۃ وغیرہ کتنی ہی پابندی واحتیاط سے ادا گئی ہو۔ منقول ہے کہ ایک دن حضرت ابوذر ہاتھ میں عصا لئے ہوئے سیدنا عثمان غنی کی مجلس میں آئے تو وہاں کعب بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ سیدنا عثمان غنی نے حضرت کعب سے پوچھا ، کعب (تمہیں معلوم ہی ہے ) عبدالرحمن بن عوف اس حال میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان کے پاس مال ودولت کی فروانی تھی ۔ ان کا ترکہ نہایت کثیر مقدار سونے چاندی اور دوسرے مال واسباب پر مشتمل ہے اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے (مال ودولت کی اس قدر کثرت وفراوانی عبدالرحمن کے درجہ کمال کی راہ میں کسی نقصان کا باعث تھی یا نہیں ) حضرت کعب بولے : اگر عبدالرحمن اس مال ودولت میں اللہ کا حق یعنی زکوۃ وغیرہ ادا کرتے تھے تو پھر اس مال ودولت میں ان کے لئے کوئی نقصان اور خدشہ کی کوئی بات نہیں ، حضرت ابوذر نے حضرت کعب کی جو یہ بات سنی تو اپنا عصا اٹھا کر ان کو مارا اور بولے : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر میں پاس اس پہاڑ (یعنی احد پہاڑ ) کے برابر سونا ہو اور میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کروں تو اس کے باوجود کہ میرا وہ خرچ کرنا قبول کرلیا جائے میں بالکل پسند نہیں کروں گا کہ میں اس میں سے چھ اوقیہ (دوسوچالیس درہم کے برابر ) بھی سونا چھوڑ جاؤں ، پھر حضرت ابوذر نے حضرت عثمان غنی کو مخاطب کرکے کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ تم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا ہے؟ ابوذر نے یہ بات تین مرتبہ کہی ، حضرت عثمان غنی نے جواب دیا ۔ ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے میں نے بھی یہ ارشاد سنا ہے ۔ بہرحال حضرت ابوذر چونکہ کامل درویش اور تارک الدنیا تھے اور زہد وفقر پر سختی سے کار بند تھے اس لئے ان کا مسلک یہ تھا روپیہ پیسہ اور مال وزر جمع کرنا ، بچا کر رکھنا جائز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ دے سب اسی کی راہ میں خرچ کردینا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں ان کے مزاج میں اتنی شدت تھی کہ دولت کے جواز میں کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے چنانچہ جب حضرت کعب نے حضرت عبدالرحمن کی دولت کے جواز میں بات کہی تو حضرت ابوذر پر ان کا یہی سخت جذبہ غالب آگیا اور انہوں نے حضرت کعب پر اپنا عصا کھینچ مارا ۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے تو جمہور کا مسلک یہی ہے کہ اگر زکوۃ وغیرہ ادا کی جاتی رہے تو مال ودولت جمع کرنے اور بچا کر رکھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو رہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی بات جو حضرت ابوذر نے بیان کیا تو اس سے مال ودولت کی برائی یا مال ودولت جمع کرنے کے عدم جواز کا کوئی پہلو نہیں نکلتا جیسا کہ شائد حضرت ابوذر سمجھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو محض اپنے جذبہ انفاق فی سبیل اللہ اور دنیاوی مال ودولت سے اپنی بے رغبتی کا اظہار فرمایا تھا نہ کہ اس دولت کے جمع کرنے اور رکھنے کے عمومی عدم جواز کا اظہار مقصود تھا جو جائز وسائل وذرائع سے آتی ہو ۔ اور جس کے حق (یعنی زکوۃ وغیرہ ) کی ادائیگی کا اہتمام رکھا جاتاہو۔
یعنی زہد میں " یہ الفاظ کسی روای کے ہیں ، اصل روایت کا جزء نہیں ہیں ۔ واضح رہے کہ صاحب استیعاب نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بیان کئے گئے ہیں ۔ جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تواضع وانکسار کے دیکھنے کی خواہش وسعادت حاصل کرنا چاہتا ہو وہ ابوذر کو دیکھ لے " اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث بالا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر کی جس صفت میں حضرت عیسیٰ کے مشابہ فرمایا ہے وہ تواضع اور انکسار ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ جس روای نے یعنی فی الزہد کے الفاظ میں " مشاہبت " کی توضیح کرنی چاہی ہے ان کے علم میں یہ حدیث نہیں تھی ، جس کو صاحب استیعاب نے نقل کیا ہے اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ زہد اور تواضع کے درمیان کوئی منافات نہیں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں بلکہ جو شخص " زاہد " ہوگا وہ متواضع ومنکسر المزاج بھی یقینا ہوگا ۔ علاوہ ازیں " یعنی فی الزہد " کے الفاظ اصل کتاب یعنی مصابیح میں موجود نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ کے بڑھائے ہوئے ہیں ۔